کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 204
اس سے ان کی توہین وتنقیص لازم آتی ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو ائمہ کرام کے شاگرد ان رشید جوہم سے زیادہ اپنے اساتذہ کرام کی توقیر وتکریم کا جذبہ رکھتے تھے اور ادب واحترام کا مفہوم ہم سے زیادہ سمجھتےتھے کبھی ان کی مخالفت کرنے کی جرأت نہ کرتے۔ جبکہ امر واقع یہ ہے کہ انہوں نے بیشمار مسائل میں اہپنےا ساتذہ کےخلاف اقوال وآراء کو ترجیح دیاہے، جیساکہ سابقہ سطور میں واضح کی جاچکاہے ۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ ائمہ کرام علم ومعرفت کے اعلی ترین مقام پر فائز تھے، کتاب وسنت کا صحیح تفقہ ان کوحاصل تھا اس سےا نکاروہی شخص کرسکتاہے جس کے دل میں ائمہ کرام کےخلاف بغض وحسد ہوگا۔ لیکن اس کا مطلب ہر گزہرگز نہیں ہے کہ دین کے تمام مسائل میں ان کی رائے یا ان کا اجتہاد وموافق حق وصواب ہو۔ ورنہ صحیح سنت سے مخالفت کی صورت میں ان کی رائے یا ان کے اجتہاد کو ترک کردینے کی ان کی تلقین کا کوئی معنی ومفہوم نہ ہوگا، بلکہ ایک لات بات ہوگی۔ اسی طرح ان کے شاگردوں کا ان کےخلاف فتوی دینا درست نہیں ہوسکتا۔ ۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ کسی بھی امام کے کسی بھی قول کی مخالفت کوواضح کرتے ہوئے علماء اہلحدیث نے مخالفت برائے مخالفت کااسلوب نہیں اپنایا ہے، ا ور نہ دلیل کے بغیر ان کی مخالفت کی ہے اور نہ وہ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن مولوی ابوبکر غازی پوری اور ان کے ہم نوا حضرات نہ صرف عصر حاضر کے اہلحدیث کو اس سے مہتمم کرتے ہیں بلکہ متقدمین ائمہ حدیث کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔ چنانچہ علامہ عامر عثمانی رحمہ اللہ جواپنی روشن خیالی اور رواداری میں شہرت رکھتے ہیں وہ بھی امیرا لمؤمنین فی الحدیث امام بخاری علیہ الرحمۃ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےخلاف بے بنیاد انتہائی غلط اور لغو بدظنی کاشکار قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، ا ور الزام عاید کرتے ہیں کہ امام صاحب کے قول کی گہرائی کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے انہوں نے خواہ مخواہ بیر مول لیا تھا۔ [1] اب اگر امام بخاری رحمہ اللہ
[1] ملاحظہ ہو : ماہنامہ تجلی، دیوبند ڈاک نمبر دسمبر ۱۹۷۲ء منقول از مجالس تالیف محمد ای سصفدر (ص۴)