کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 201
(6)فتنو ں کی جڑ تقلید یا عدم تقلید [1]
’’لامذہبیت“ کی اصطلاح ایجاد کرکے اہلحدیثوں اور سلفیوں کی نیش زنی کرنا، ا سے الحاد وبے دینی یا اسلام کےلیے ایک خطرناک فتنہ قرار دینا اور ترک تقلید کے مہلک نتائج کا کھڑا کرنا درحقیقت اپنی بے دینی اور ائمہ کرام کی تقلید پر اپنے جمود کےلیے وجہ جواز فراہم کرنے کی سعی لاحاصل ہے۔ چنانچہ وہ خود مذکورہ صفات کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم پر ائمہ کرام کے اقوال خصوصاً فقہاء متأخرین کے فتاوی اور ان کی تفریعات اور فرضی مسائل کو ترجیح دینے کا جو موقف اپنا رکھاہے اور اس کے نتیجہ میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کےحق میں جنم لینے والی بلا کی جو مبالغہ آمیزی پر مبنی اسی موقف نے علامہ عامر عثمانی رحمہ اللہ جیسے جہاندیدہ شخص کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ :
”فقہ کے بہتیرے مسائل ایسے ہوتے ہیں جو صرف بادی النظر ہی میں نہیں، بلکہ
[1] یہاں یہ واضح کرنا منا سب سمجھتے ہیں کہ ہم ا س قسم کے مسائل سے بادل نخواستہ سمجھتے ہیں کہ ہم ا س قسم کے مسائل سے بادل نخواستہ ہی تعرض کرتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ پانی سر سے اونچا ہوچکاہے تومجبوراً قلم اٹھانا پڑتا ہے۔ آج کل کچھ زیادہ ہی اس بات کا چرچا کیاجارہاہے کہ ترک تقلید ہی تما فتنوں کی جڑ ہے ۔ ا ور اس کے مہلک نتائج سے باخبر کرنے کےلیے مضمون پر مضمون لکھے جارہے ہیں بلکہ اسے وقت کا بہت بڑا فتنہ قرار دیتے ہوئے اس کے رد وابطال میں مخصوص طور پر چرچے نکالے جارہے ہیں۔ ا وردعوت عمل بالکتاب والسنۃ جسے یہ لوگ لامذہبیت وغیر مقلدیت سے تعبیر کرتے ہیں اسے برصغیر سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم معصم کا اظہار کیا جارہاہے “ لہذا انہی چیرہ دستیوں سے مجبور ہوکر یہاں کچھ عرض کرنے کی جسارت کررہے ہیں، امید ہے کہ قارئین کرام ہمیں اس سلسلے میں کسی حد تک معذور گردانیں گے۔