کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 198
الآراء کتاب ”بدعة التعصب المذھبی ” میں ذکر کردیاہے۔ ا ور ساتھ ہی ان کی لامذہبیت والی کتاب کا حقیقت پسندانہ جائز ہ بھی لیاہے، فجزاہ اللہ أحسن الجزاء۔ برصغیر ہندوپاک میں ”لامذہبیت”کی اصطلاح کوفروغ دینے کی وسیع پیمانے پر کوشش ہورہی ہے، ا ور اسے خوب رواج دیاجارہاہے۔ عوام کویہ ابور کرانے کی مہپم چلائی جارہی ہے کہ عدم تقلید مذہبی بے رواہ روی کے عین مترادف ہے، تاکہ عوام ان کے غلط پروپیگنڈوں سے متأثر ہوکر اہلحدیثوں کے قریب نہ جائیں، اور ان کی دعوت جو کتاب وسنت کے عین موافق ہے “ کو نہ سن سکیں۔ کیونکہ آج عوام کےا یک بڑے طبقہ میں دینی بیداری پیدا ہوچکی ےہے۔ محض آباوواجداد کی تقلید کی بنیاد پر کسی چیز کو قبول کرنے کےلیے اپنے اپ کو تیار نہیں پاتے ہیں جب تک اسے اچھی طرح سمجھ نہ لیں۔ ا ور کتاب وسنت سے اس کی دلیل نہ جان لیں۔ لہذا ان کے لیے ضروری تھا کہ اس دعوت کےخلاف ایسی مہم چلائی جائے جس سے عوام میں ا س سے بدظنی پھیل جائے اور وہ سلفیوں کی کسی بات کوسننے کےلیے تیار ہی نہ ہوں۔ خاص اسی مقصد کے تحت جرائد ومجلات نکالے جارہے ہیں، بلکہ دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم ادارہ میں ان کے خلاف طلبہ کی ذہن سازی کی جاتی ہے، اور ان کی لامذہبیت وبددینی کو ( اپنے زعم کے مطابق) نونہالان امت کے ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس مقصد نیک کی خاطر مستقل کتابیں تصنیف کر کے انہیں داخل نصاب کیاگیاہے۔ دیوبند کے ایک لائق سپوت محمد ابوبکر غازی نے ” وقفة مع اللامذھبیة “ لکھ کر اس مہم کو مہمیز لگانے کی عظیم انجام دی ہے۔ جب وابستگان دارالعلوم کو اس خدمت جلیلہ سے آگاہی حاصل ہوئی تو اسے لازمی طور پر بنظر تحسین دیکھا، آنکھوں سے لگایا، مؤلف کتاب کاتہہ دل سے شکریہ ادا کیا، اور دل کھول کر دادی دی، اور انہیں پذیرائی حاصل ہوئی کہ اہلحدیثوں کومنبوذ ( اچھوت) کہنے والے یہ حضرت جوخود اپنی جماعت میں اچھوتوں کی زندگی گزاررہےتھے اس سے نکل کر قوم کے ہیرو بن گئے۔