کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 197
ان کا کہناہے :” اللامذھبیة قنطرة اللادینیة[1] یعنی لامذہبیت بے دینی کاپل ہے۔ اپنی کتاب ”الترحیب بنقد التأنیب“ میں بھی اس اصطلاح کواستعمال کیاہے۔ [2] ان کے بعد جن صاحب نے ”لامذہبیت“ کی اصطلاح استعما ل کی ہے وہ ہیں شام کے عالم ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوطی۔ آپ نے ”اللامذھبیة أخطر بدعة تھدد الشریعة الاسلامیة “ کے عنوان سے ایک کتاب ہی تصنیف کرڈالی ہے، یعنی لامذہبیت شریعت اسلامئہ کےلیے دھمکی آمیز ایک حددرجہ خطرباک بدعت ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف ابوبکر غازی پوری اس سلسلے میں ان کےخوشہ چیں ہیں، حب ّ علی نے نہیں بلکہ بغض معاویہ نے دونوں کوقریب کردیاہے۔ کیونکہ ڈاکٹر بوطی صاحب شافعی ہیں اور غازی پوری صاحب حنفی ۔ تقلید کی قدر مشترک کے ساتھ سلفیت دشمنی اور علامہ البانی رحمہ اللہ سے بغض وعداوت نے دونوں کوجمع کردیاہے۔ ورنہ احناف وشوافع کے مابین زمین وآسمان کا بعد پایاجاتاہے، جیساکہ آگے چل کرکہیں اس کی وضاحت کی جائے گی۔ موصوف بوطی صاحب سلفیت دشمنی میں اس قدر تپے ہوئے ہیں کہ انہیں یہ چیلنج کرنے میں ذرا بھی شرم وحیا دامن گیر نہیں ہوئی کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں سلفیت کا لفظ ہی اانہیں نظرآیا۔ اور نہ اس نام کی کوئی جماعت دکھلائی دی۔ اور اس کے ساتھ ہی سلفیت پر بدعت کا حکم چسپاں کردیا۔ جس سے ان کی علمی تہی دامنی، سلفیت سے نغض وحسد کاپتہ چلتا ہے۔ ا ن کے اسی عناد کو دیکھ کر محدث عصر اور بقول فقیہ سید واڑہ سلفیت کے امام علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ وحمۃ واسعۃ کو مناظرہ کی پیش کش کرنی پڑی، جوبمشکل تمام انہی یعنی موصوف بوطی کے گھر میں صرف ایک قسط میں منعقد ہوسکا۔ دوسری قسط کی کوششوں کے باوجود نوبت نہیں آسکی۔ اس مناظرہ کی مختصر روداد شیخ محمد عید عباسی نے اپنی معرکۃ
[1] بدعة التعصب المذھبی (ص ۱۴۲) [2] ان کی عبارت ملاحظہ ہو: وأما عندی فربما یکون ھذ الناقدمن اللامذھبیة الحدثاء الذین یضللون أتباع أئمة الھدی المتبوعین، الترحیب بنقد التأنیب (ص ۲۹۵ مطبوع مع التانیب )