کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 196
مثالیں بکثرت ملتی ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر اہل علم نے تقلید کی راہ اپنانے سے گریز کیاہے، یا تقلید پر کچھ دنوں کار بند رہنے کے بعد اسے ترک کردیا۔ لیکن ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی کہ وہ معاشرہ میں مبغوض قرار دئیے گئے ہوں، یاانہیں ”غیر مقلدیت“ کا طعنہ دیاگیاہو۔ بلکہ سرے سے ہمیں قدیم کتابوں میں اس لفظ کا ذکر ہی نہیں ملتاہے۔ ا س کے برخلاف تقلید کی قباحت وشناعت میں علماء کرا، کے بے شمار اقوال ملتے ہیں۔ بہرحال غیر مقلدیت کے ذریعہ نیز بالألقاب سے جی بھر گیا تو ان ایک نئیا صطلاح ایجاد کی گئی ہے اور بڑے شدومد کے ساتھ اس کا استعمال کیاجارہاہے اور اس کو شہرت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ا ور وہ ہے ”لامذہبیت“۔ ا س نئی اصطلاح کی ایجاد واختراع کا سہرا کس کے سر جاتا ہے، ا س سلسلے میں بھی قطیعت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ لیکن اتناطے ہے کہ غیر مقلدیت کی طرح یہا صطلاح بھی قدیم نہیں جدید بلکہ جدید تر ہے ۔ ” رد غیر مقلدیت“ کے مصنف تفقہ مآب محمد! شداعظمی صاحب ( جومفتی اعظم کا لقب رکھتے ہیں ) کی تحقیق انیق کے مطابق صاحب مظاہر ھق نواب قطب الدین (م ۱۲۸۹ھ ) نے اپنے رسالہ موسوم۔ ۔ ”تحفة العرب والعجم “ میں مولابا عبدالحق محدث بنارسی اور ان کی جماعت کے ھق میں”لامذہبی“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ [1] دوسری قدیم ترین شخصیت جس نے ”لامذہبیت“ کی اصطلاح استعمال کی ہے وہ علامہ زاہد کوثری ( م ۱۳۷۱ھ) کی شخصیت ہے، جن کی مسلک حنفی فدائیت کا اندازہ اسی سے لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فضیلت ابرتری ثابت کرنے اور ان پر کیے گئے بعض اعتراضات کا وجاب دینے کے لیے امام امالک، شافعی اور دیگر ائمہ حدیث (رحمہم اللہ ) کوآڑے ہاتھوں لیاہے۔ خاص طریقے سے امام شافعی رحمہ اللہ کی فقاہت، عدالت، ا ور زبان دانی سمیت ان کے حسب ونسب پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ [2]
[1] ردغیر مقلدیت (۱/۲۲، ۴) [2] کوثری کے انہی تصرفات کی وجہ سے ابولافیض احمد بن الصدیق غماری نے ان کو ” مجنون ابی حنیفہ“ کا لقب دیاہے، ملاحظہ ہو: بدع التفاسیر مؤلفه عبداللہ غماری (ص ۱۸۰)