کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 194
کتاب وسنت اور سلف امت سےا پنے رشتوں کومضبوط کریں۔ کیونکہ کتاب وسنت ہی ہماری جملہ مشکلات کےحل کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ اور منہج سلف کو اپنا کر جن چیلنجوں کا ہمیں سامنا ہے، ہم ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ واقعات ومشاہدات بتلاتے ہیں کہ تقلید کے ذریعہ افراد امت کی شیرازہ بندی کا دعوی محض دعوی ہے، ا مر واقع سے اس دعوی کوادنی سی بھی نسبت نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تقلیدکی جکڑ بندیوں نے ہی امت کو مختلف کیمپوں میں تقسیم کرکے رکھ دیاہے۔ بلکہ ایک ہی مذہب کے ماننے والے جماعت درجماعت، گروہ درگروہ میں بٹ کر رہ گئے ہیں اور تقسیم امت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے بند نہیں ہواہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ایک مذہب کے مقلدین کم از کم ایک پلیٹ فارم پر جمع رہتے، ان کے مابین کوئی تقسیم نہ ہوتی، جیساکہ تقلید کے بارے میں دعوی کیاجاتاہے ۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسی طرح ان تمام دینی واخلاقی برائیو ں اور چیلنجوں میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہاہے، جن پر قد وغن لگانے کےلیے تقلید کوواجب اور فرض قررادیاجارہاہے، جبکہ دعوی کے مطابق ہونا یہ چاہئے تھا کہ تقلیدی معاشرہ میں ان کا وجود ہی نہ ہوتا۔ کیونکہ مقلدین کی کثرت ہے، تنہاحنفی مسلک کے مقلدین کی تعداد مسلمانان عالم کی دوتہائی کےبرابر ہے، جیساکہ عالمہ زاہد کوثری نے صراحت کی ہے [1]اور ایک تہائی میں مالکی، شافعی، حنبلی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ توتقلید کی بنیاد پر عالم اسلام سے برائیوں کا بالکل خاتمہ ہونا چاہئے تھا۔
ا ور یہ دعویٰ کہ ترک تقلید سے ہی انکار حدیث، قادیانیت جیسے فتنے جنم لیتے ہیں۔ اس کی حیثیت اتہام سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر کسی غیر مقلد نے انکار حدیث کی راہ اپنائی یا قادیانیت کواختیار کیا تومقلدین میں سے بھی ایسی دسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں لوگوں نے نہ صرف انکار حدیث کی راہ اپنائی یاقادیانیت اختیار کی بلکہ ان فتنوں کی آبیاری میں قائدانہ رول ادا کیا۔ فتنوں کا تعلق ترعک تقلید سے نہیں بلکہ شیاطین جن وانس
[1] تأنیب الخطیب، مولفہ : زاہد الکوثری (ص۲۱)