کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 193
ہوئے غلطی کےا زالہ اور عدم درستگی کی راہ سے بچنے کوشش ضروری ہوجاتی ہے۔ اگر ہم تقلید کواصحاب اختساص کی جانب رجوع پر قیاس کرتے ہیں یا ماہرین فن پر انحصار کانام دیتے ہیں تو اس سے کسی ایک شخصیت یا کسی ایک فقہی مسلک میں اپنے آپ کو محصور کرلینے کے جواز یاوجوب پر کس طرح استدلال کیاجاسکتاہے ؟ ۲۔ صدر اول اور قرون اولی میں عدم تقلید اور بعد کے ادوار لے رواج کو وقت اور زمانہ کی ضرورت اور تقاضا قراردینے کی صورت میں شریعت اسلامیہ کا عدم کمال اور اس کا ناتمام ہونا لازم آتاہے۔ ا ور یہ کہ وقت اور زمانے کی طبیعت اور اس کے تقاضوں کی روشنی میں ثابت شدہ احکام میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ گویا دینی معاملات میں وقت اور زمانے کا اعتبار کیا جاسکتاہے، ا ورا س کو بھی تشریعی مصادر میں ایک مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ حالانکہ یہ نہایت غلط اور حد درجہ مخالف کتاب وسنت بات ہے۔ اگر ہم اس کو تسلی کرلیتے ہیں تو آزاد خیال اور دینی واخلاقی اقدار وقیود سے بے زار حضرات کی منہ مانگی مراد بر آئے گی، جومتعدد شرعی احکام کوترقی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ وقت اور زمانے کےتقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے ان میں تبدیلی کےخواہاں ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ تقلید کے سلسلے میں وقت کے تقاضوں کی رعایت کی جائے، ا ور دیگر احکام میں ان کی رعایت نہ کی جائے، حالانکہ بعض ائمہ سلف سے نہایت واضح الفاظ میں منقول ہے : لن یصلح آخرہ ھذہ الأمۃ إلا ماأصلح ‍أولھا یعنی اس امت کے آخر کو وہی چیز درست کرسکتی ہے جس نے اس کےا ول خودرست کیا تھا۔ کیا اس وجاحت کے بعد بھی زمانے اور وقت کے تقاضوں اور ان کی طبیعت کا اعتبار کیاجاسکتا ہے ؟؟ ۳۔ درپیش مسائل ومشکلات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تقلید کولازمی قراردینا درحقیقت مسألے کاحل نہیں ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں ہم مسائل کا حل چاہتے ہیں تو