کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 192
۳۔ موجودہ دور الحاد ومادیت کادور ہے۔ مسلم معاشرہ کو مختلف حد درجہ خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہے۔ لوگ خواہشات نفس کی پیروی میں دینی، اخلاقی اقدار وقیود سے آزاد ہونے کے لیے بے چین ہیں بلکہ آزاد ہوتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں کسی ایک خاص مذہب کا التزام اور اس کی پابندی اشد ضروری ہوجاتی ہے۔ کیونکہ کسی ایک فقہی مسلک اور مکتب فکر کے ذریعہ درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔
اس کےبعد اصل مقصد کو بیان کیاگیا ہے جس کی طرف سابقہ سطور میں اشارہ کیا جاچکاہے، یعنی برصغیر میں ایک جماعت حنفی مکتب کفکر کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بناتی چلی آرہی ہے۔
غیرجانبداری کے ساتھ مذکورہ دلائل کا جائزہ لیتے ہیں توحسب ذیل حقائق سامنے آتےہیں :
۱۔ اصحاب اختصاص اور ماہرین علم وفن اور صنعت وحرفت سے رجوع کی بات اپنی جگہ صد فی بجا درست ہے، ہردور اور ہر زمانہ میں اس کا التزام کیاجاتارہاہے بلکہ عصر حاضر میں اس کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کیاجاتاہے۔ لیکن کسی ایک صاحب اختساص اور ماہر فن پر مکمل انحصار اور کلی اعتماد کوہم تسلیم کرنے سے عاجز ہیں کیونکہ مشاہدات وتجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ لوگ معمولی سے معمولی معاملات میں بھی کسی ایک صاحب اختصاص یا ماہر فن پر مکمل انحصار نہیں کرتے، بلکہ مختلف اصحاب اختصاص اور ماہرین سے رجوع کرنے کے بعد ہی عملی قدم اٹھاتے ہیں تاکہ غلطی کا امکان کم ہو۔ اگر کسی وجہ سے کسی ایک صاحب اختصاص پرا نحصار کربھی لیا تو ناکافی یا غلطی کا امکان ظاہر ہوتے ہی فوراً کسی دوسرے بڑے ماہر فن اور صاحب اختصاص کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ بلکہ کسی ایک پر انحصار کر بھی لیاتو ناکافی یا غلطی کا امکان ظاہر ہوتے ہی فوراً کسی ایک پر انحصار لوگوں کے لیے باعث ندامت اور صدافسوس بھی ثابت ہوجاتاہے۔ لہذا دین جیسے اہم اور نازک معاملہ میں کسی ایک شخص پر کلی انحصار کیونکر قابل قبول ہوسکتا ہت۔ یاانحصار کر بھی لیاجائے توغلطی یا عدم درستگی کے ظاہرہوجانے پر اصرار وعناد کا موقف نہ اختیار کرتے