کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 191
سے اس نام کو استعمال کیاگیاہو۔ واللہ أعلم بحقیقة الأمر۔
بہرحال مذکورہ وثیقہ میں لفظ ” تقلید“ سے گریز کرتے ہوئے عصر حاضر میں تقلید کی اہمیت وضرورت اور اس کے وجوب کوبالکل نئے اسلوب اور جدید طرز میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نام کی صراحت کیے بغیر جماعت اہلحدیث کوہدف ملامت وتنقید بنایاگیاہے، ا ور الزام عاید کیاگیاہے کہ یہ جماعت تقلیدی مذاہب خصوصاً حنفی مذہب کو اپنے شدید حملوں کا نشانہ بناتی ہے جبکہ برصغیر میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت حنفی مذہب کی مقلد ہے۔ جن بنیادوں پر تقلید کے وجوب کوثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
۱۔ چونکہ موجودہ دور کواسپیشلائزیشن کا دور کہاجاتاہے، ہر معاملہ میں اصحاب اختصاص ہی کی جانب رجوع کیاجاتاہے، ا س لیے زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے تقلید کے مروجہ لفظ سے مکمل اجتناب کیاگیاہے، ا ور اصحاب اختصاص (اسپیشلسٹ حضرات ) کی جانب ہر معاملہ میں رجوع کوبنیاد بناکر دینی معاملہ میں اصحاب اختصاص کی طرف رجوع (دوسرے صاف لفطوں میں تقلید) وکواجب وضروری قرار دیاگیاہے۔ اس طرح تقلید کی قباحت پر نہایت خوشنما غلاف چڑھا کر بڑے ہی حسین اندازمیں اسے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے وجوب کوثابت کیاگیا ہے۔
۲۔ ابتدائی دور میں کسی خاص فقہی مکتب فکر کی عدم پابندی کوزمانے کی طبیعت سے ہم آہنگ اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دیاگیا ہے، ا ور جب تقلید کا رواج ہوا اور کسی ایک کاص فقہی مکتب فکر کی پابندی اور اس کی تقلید کوواجب وضروری قراردیاگیا تو وہ بھی وقت کی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت اور زمانہ کا ایک غیر معمولی تقاضا تھا۔ [1]
[1] یہاں تقلید کے عدم رواج اورکسی خاص مکتب فکرکے عدم التزام کوابتدائی دور کی طبیعت اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ قراردیا جارہاہے، جبکہ انہی کے بعض اہل علم یہ کہہ آئے ہیں کہ تقلید کا رواج عہد رسول علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم سے ہی متوارث چلا آرہاہے، ملاحظہ ہو: مقدمہ اعلاء السنن (۲/۷)