کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 187
[1]جاتی ہیں وہیں ائمہ کرام کی توقیر واحترا م کے دعوی کاکھوکھلا پن بھی واضح ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان علماء امت کا بھی لامذہب، بے دین اور غیر مقلد ہونا لازم آتاہے جوائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی تقلید کے قائل نہیں تھے؟ اس سے بڑھ کر قرون مشہود لہا بالخیر جن میں صحابہ کرام، تابعین عظام، اتباع تابعین اور ائمہ کرام شامل ہیں، جورواج تقلید سے پہلے پائے جاتے تھے، وہ سب کے سب لامذہب قرار پائیں گے (نعوذبا اللہ من ذلک) اس سے بھی بؑھ کر کوئی اور گستاخی ہوسکتی ہے ؟ جن کے واسطے سے ہم تک دین اپنی صحیح شکل میں پہنچا اور جنہوں نے دین اسلام کی نشر واشاعت میں اپنےخون بہائے، ہر قسم کی تکلیفیں اور
[1] =چار روٹی کے مانند تقلید ہی کی جھلک نظرآئی، چنانچہ اپنےا یک ڈرامے میں ”جھوٹ کا پول کھل کررہتا ہے“ کےعنوان سے کافی ”مہذب“ انداز میں سین پیش کیاہے، ظاہر سی بات ہے تہذیب وثقافت پرا نہی لوگوں کی اجارہ داری ہے، کچھ بھی کریں وہ تہذیب کے دائرہ میں ہی شمار کیاجائے گا، کہاجاتاہے کہ کسی بھی صاحب قلم کی تحریر میں اس کے اپنے معاشرہ، فطرت اور صنعت وحرفت کاعکس نمایاں ہوتا ہے، موصوف شیرازی اپنے باپ بیتے کی زبان میں لکھتے ہیں :اس سے ( یعنی راقم کی تحریروں سے ) عدم تقلید کاثبوت زمانی قدیم میں ثابت ہوجائے گا، مگر تقلیدکا ثبوت بھی چوتھی صدی ہجری سے پہلےثابت ہوجائے گا“۔ زمزم ج ۲ش ۱۰(ص۶۱)
لیکن انہیں یہ نظر نہیں آیا کہ ائمہ اربعہ کی تقلید پر اجماع کا جودعوی کیاجاتاہے ان اقتباسات سے اس کی بھی مبینہ طور سے نفی ہوجاتی ہے۔ ا وررہا یہ مسئلہ کی تقلید کا رواج کب سے ہوا چوتھی صدی سے یا دوسری صدی سے، یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں رہ گیا ہے کیونکہ اب توصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے زمانے سے ہی تقلید کے رواج کا دعوی کیاجارہاہےئ۔ ملاحظہ ہو: ردغیر مقلدیت (۲/۴۰، ۳۲)
اس پرآدمی یہی کہہ سکتا ہے کہ کچھ عجب نہیں مرورزمانہ کے ساتھ مولانا ابوبکر غازی پوری نسل سے ایسے محققین جنم لیں گے جو عہد نبوی سے ہی رواج تقلید کا دعوی کر بیٹھیں گے بلکہ ایک بزرگ بہت ہی پہلے اس کا دعوی کرچکے ہیں چنانچہ تقلید کو عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی متوارث بتلایاہے، ملاحظہ ہو: مقدمہ اعلاء السنن (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے ہزار ہاسال قبل) پرانی جماعت قرار دیاہے، اور اس اعتراف کے باوجود کہ نماز میں رفع الیدین کا مسئلہ صحابہ کرام کے زمانہ سے ہی مختلف فیہ چلاآرہاہے، تاہم رفع الیدین کی جملہ احادیث ضعیف، موضوع، معقسل، مضطرب، شاذ، منکر اور غیر سالم عن المعارضہ ہیں، یعنی کچھ صحابہ کرام ایسے بھی تھے جو اس نوعیت کی احادیث پر عمل پیرا تےے، (نعوذ باللہ من الخزی والخذلان ) یہ ہے تقلید کا نشہ جس نے صحابہ کرام کو بھی نہیں بخشا، ا ن کو بھی مقلد بناکررکھ دیا اور وہ بھی ضعیف، موضوع، معفل ومنکر احادیث پر عمل کیاکرتے تھے، اور یہ ہے روشن دماغی جس کو کتب فقہ کی گردان سے جلا بخشاجاتا