کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 181
حد سے زیادہ مبنی برغلط اور عقل وفہم سے بعید ہے۔ بزعم خویش قرین وفہم اور مبنی برحقیقت اس استدلال کی کہ اناج کا اطلا ق گیہوں، جَو، چناا ور مٹر بھی ہوتاہے اور چونکہ چاول ان میں سے کسی میں داخل نہیں ہے۔ اس لیے چاول اناج نہیں ہے۔ یہ ہے ازہر ہند کے ایک استاذ کا استدلال اور ا سکی حقیقت۔ اور اس قسم کے فضلاء کی تیار کردہ کتابیں داخل نصاب ہیں۔ خیر یہ ان کا اپنا داخلی معاملہ ہے چاہے جس طرح کے استاذ کی تقرری فرمائیں اور جس نوعیت کی کتابیں داخل نصاب کریں، ہم کوزیادہ کچھ کہنے کا حق نہیں ہے۔ لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ جماعت اہلحدیث کی دشمنی میں اس حد تک خبط الحواسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ زبان وقلم پر گرفت باقی نہ رہے، ا ور الفاظ وجملوں کےصحیح استعمال کی صلاحیت کھوبیٹھیں۔ یہاں کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ فقیہ موصوف کی عبارت میں کتابت کی غلطی سے” ہی “ کے بجائے ”بھی“ ہوگیا ہے۔ شاید موصوف کہنا چاہتے ہیں ”مذہب کا اطلا ق مذاہب ائمہ اربعہ پر ہی ہوتا ہے۔ “[1] اگر تھوڑی دیر کے لیے ہم اس مفروضہ کو تسلیم کربھی لیں پھر بھی بات بنتی نظرنہیں آتی۔ کیونکہ موصوف اعظمی صاحب علم ومعرفت کےا س مقام کو ابھی نہیں پہنچ سکے ہیں ( خواہ ان کی حیثیت دارالعلوم دیوبند میں جو بھی ہو ) کہ ان کے اتنے بڑے دعوے کو ائمہ لغت وائمہ فقہ وغیرہم سے نقل کیے بغیر بلاچوں چرا تسلیم کرلیاجائے۔ موصوف نے علماء کرام کے جو اقتباسات پیش کیے ہیں ان سے صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ ائمہ اربعہ کے آراء
[1] فقیہ سید واڑہ جناب ابوبکر غازی پوری اور ان کی ہم نوائی کرنے والے حضرات جس طرح جماعت اہلحدیث کے علماء کی مطبعی غلطیوں پر گرفت کرکے ان کواچھالتے اور ان کی بنیاد پر جہالت کی سند عطا کرتے ہیں اس سے ہر شخص یہی نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ ان کے یہاں طباعت کی غلطیاں نہیں پائی جاتی ہیں، جو کچھ سپردقلم کرتے ہیں اس کو حرف اخیر کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اس میں طباعت وغیرہ کی کسی غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ بلکہ بعض اکابر نے قسم کھاکر اس کا دعوی بھی کیاہے، جیساکہ اس کی جانب اشارہ کیاجاچکاہے۔ چنانچہ اپنی زبان فیض ترجمان سے کئی مرتبہ یہ الفاظ فرمائے :” سن لو! حق وہی ہے جورشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے، ا ور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت ونجات وقوف ہے میرے اتباع پر ”تذکرۃ الرشید (۱/۱۷)