کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 179
اپنےمخالفین اہلحدیثوں کےدلوں پر تحکمانہ انداز استعمال کرتے کرتے اب الفاظ کے استعمال پر بھی تحکمانہ اسلو ب اپنایاجارہاہے۔ ا للہ جانے یہ اختیار ان کو کہاں سے حاصل ہوگیا کہ جس کےحق میں جولفظ چاہیں استعمال کریں اور جو نہ چاہیں نہ استعمال کریں اور نہ کسی کو استعمال کرنے دیں۔ اورا س کو مناسب، قرین عقل وفہم اور مبنی برحقیقت کانام دیں۔ ا ب تک یہی دیکھتےا ور سنتے چلے آرہے ہیں کہ انفرادی یا اجتماعی طور پر لوگ اپنے لیے جس نام کا انتخاب کرتے ہیں دیگر حضرات اسی کی پابندی کرتے ہیں اس میں ان کو اعتراض نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر یہی حضرات دیوبند کی طرف نسبت کرکے اپنےآپ کو دیوبندی کہتے ہیں، جبکہ اس کی کوئی شرعی حیثیت بھی نہیں ہے، چاہے جتنا اسے خوابوں اور منامات کے ذریعہ مقدس ومتبرک ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کا قلابہ عرش اور جنت سے ملایاجائے [1]اسےا یک عجمی گاؤں سے زیادہ کوئی اہمیت وحیثیت نہیں حاصل ہو سکتی۔ اسی نام سے ایک مابہ الامتیاز جماعت سے بھی بنالی گئی توکیاکسی کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ ان سے کہے کہ نہیں، تمہارا یہ نام مناسب نہیں ہے، بلکہ تمہارا مناسب نام یہ ہونا چاہیے ؟ حقیقت تویہ ہے کہ یہ حضرات اپنے آپ کو اس غیر دینی اور غیر شرعی نام سے مربوط کرلینے کے بعد پشیمانی کا شکار معلوم ہوتے ہیں، اور اپنی جھینپ مٹانے کےلیے اس طرح کے اوچھے اور نامناسب حربے استعمال کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چا ہتے ہیں۔ اگر جماعت اہل حدیث نے اپنے لیے اہل حدیث، سلفی، محمدی یا اسی جیسے متبرک اور پاکیزہ ناموں کا انتخاب کیااور اس پر ایمان ویقین کے ساتھ کیا کہ محض ناموں کےحسن انتخاب سے نجات ملے گی بلکہ حسن عمل اور حسن کردار بھی اس کےلیے لازم وضروری ہتے، تو کرم فرما حضرات کے یہاں ان ناموں کو شرف قبولیت نہیں بخشا گیا، بلکہ ان تمام
[1] اسے مبالغہ آرائی پر نہ محمول کیاجائے بلکہ اطمینان کےلیے ”مبشرات دارالعلوم 'مؤلفہ انوارا لحسن ہاشمی کا مطالعہ کرلیاجائے، ا س میں آپ ایسی ایسی غیبی بشارتیں ملاحظہ کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے اس خطہ کو بقعہ ارضی کہنا بھی مناسب نہیں ہوگا۔ واضح ہو اس کتاب پر بڑی بڑی بزرگ شخصیات کی مہر تصدیق بھی ثبت ہے۔