کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 178
پیش کرنےو الے کوئی مولانا محمد راشد اعظمی ہیں۔ پہلے رسالہ میں بڑے دلچسپ اندازمیں اور پیشہ وارانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے برصغیر کی جماعت اہلحدیث کو ”لامذہبی“ اور”بد مذہب“ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، موصوف فرماتےہیں :
'اکابر کو جن حقائق اور خصوصیات کی بناء پر اہل حدیث کہاگیاتھا ان حقائق سے یہ موجودہ اہل حدیث دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے، اس لیے ان کا نام اہل حدیث کے بجائے لامذہب ا ور آزاد مشرب ہونا ہی مناسب اور قرین عقل وفہم ہے۔ کیونکہ فقہاء ومحدثین کی اصطلاح میں مذہب کا اطلاق بسااوقات رائے ونقطہ نظر اور مسلک کے معانی پر ہوتاہے۔ ا سی مفہوم کے اعتبار سے ائمہ اربعہ کے مسالک کو وہ لوگ مذہب کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حضرت امام نووی شارح مسلم رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”فھو مذھبنا ومذھب الجمھور “۔
نیزفرماتے ہیں :
”فمذھب الشافعی وأبی حنیفة والجمھور أن أفضل، ثم البقر، ثم الغنم کما فی الھدایا، ومذھب مالک۔ ۔ ۔ ۔ “
بعدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ا ور نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ سے اقتباسات نقل کیے ہیں جن میں لفظ ”مذہب“ کااطلاق ائمہ اربعہ کےمسالک اور ان کے آراء پر کیاگیا ہے۔ اس کےبعد مندرجہ ذیل سرخی کے تحت فقیہ دیوبند صاحب تحریر فرماتے ہیں :
”ان کا مناسب نام کیاہوگاَ؟“
”ان عبارات سے واضح ہواکہ فقہاء ومحدثین کے نزدیک (مذہب کا) اطلاق ائمہ اربعہ پر بھی ہوتا ہے، ا ور یہ حضرات ان مذاہب اربعہ میں سے کسی میں بھی داخل نہیں ہیں، ا س بنیاد پر انہیں لامذہب اور آزاد مشرب کہنا زیادہ مناسب اور مبنی برحقیقت ہے۔ “ [1]
[1] ردغیرحقیقت (۱/۲۲، ۲۱)