کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 175
اگلنے کی ناکام کوشش کی اور ایک مناظرہ میں ان سے اس حکم پر دلیل کامطالبہ کیاگیا توانہوں نے لامذہبیت کی ایک نئی تعریف کرتے ہوئے اپنی قائم کردہ عمارت از خود منہدم کردی۔
فرماتے ہیں :
”مذہبیت یہ ہے کہ درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہوا شخص کسی امام کی اتباعاور پیروی کو اپنے اوپر لازم کرلے، خواہ وہ متعدد ہوں یا متعدد نہ ہوں۔ “
”اور لامذہبی اس شخص کو کہاجائے گا جواپنے فتوی طلبی میں کسی ایک امام یا متعدد ائمہ کرام کی اتباع اور پیروی کا التزام نہ کرے ۔ “ [1]
اس تفسیر وتوضیح کے مطابق روئے زمین پر شاید ہی ایسا کوئی شخص ہو جس کو ”لامذہبی “ کہاجاسکے۔ اس طرح سلفیت کی تردید میں انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب تصنیف کی تھی، لیکن ان کی اس جدید تعریف کی بنیاد پر سلفی حضرات بھی مذہبی قرار پائیں گے کیونکہ ان کے نزدیک کسی ایک متعین امام کی تقلید جامد ممنوع ہے کہ اس امام کی کسی رائے یامسئلہ میں غلطی واضح ہوجانے کے بعد بھی اس پرآدمی جما رہے۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دین کے تمام مسائل واحکام میں اسی موقف اور مسلک کواختیار کریں جواقرب الی الکتاب والسنۃ ہو اور ائمہ سلف میں سے کسی نے اس کواختیار کیاہو۔ وہ تمام ائمہ سلف سے ہٹ کر کوئی ایسامسلک یا کوئی ایسی رائے ہرگز نہیں اپناتے جس کو کسی نے نہ اختیار کیاہو۔ یہ الگ بات ہے کہ محض سلفیوں اور اہلحدیثوں کے اختیار کرلینے کی وجہ سے کوئی بھی مسئلہ ان کی نظر میں وجوبی طور پر شاذ، مرجوح اور جمہور امت کے خلاف ہوجاتاہے خواہ اسے ائمہ اربعہ ہی میں سے کسی نے اختیار کیاہو جیساکہ نابالغ ہوشیار حافظ قرآن لڑکے کی امامت کے جواز کو فقیہ سید واڑہ
[1] بدعة التعصب المذھبی (ص۳۴۰، ۳۳۹) مذکورہ مناظرہ کی پوری رواداد بدعة التعصب المذھبی کے مؤلف نے جمع کردی ہے جس کو اس مناظرہ سے واقفیت حاصل کرنی ہومذکورہ کتاب کی طرف رجوع کرسکتاہے، واجح ہو کہ یہ مناظرہ علامہ شیخ ناصر الدین المانی رحمہ اللہ اور ڈاکٹر سعید رمضان بوطی کے درمیان مؤخر الذکر کے گھر میں منعقد ہواتھا۔