کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 17
انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی۔ ا س تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ”سلف کا مفہوم متعین کرنےکےلیے محض سبقت زمانی کا فی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ کتاب وسنت وموافقت بھی ضروری ہے۔ لہٰذا کسی ایسےفرد کوسلف میں شمارنہیں کیاجائے گا جس کی رائے یا مذہب کتاب وسنت سے متصادم کیا اس کے مخالف ہو۔ خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم یا تابعین عظام رحمہم اللہ کے درمیان ہی اس نے زندگی گزاری ہو“۔ [1]
یہاں علامہ سفارینی رحمہ اللہ کا حزم واحتیاط قابل داد ہے۔ کیونکہ موصوف نے اس حقیقت کونظروں سےا وجھل نہیں ہونے دیا، بلکہ قابل اتباع سلف کی تعریف میں اس امر کی بھی قید لگائی ہے کہ لوگوں کے نزدیک ان کی دینداری اور امامت مسلم ہو، کسی بدعت میں ملوث نہ ہوں۔ آپ فرماتے ہیں :
”مذہب سلف سے مراد وہ طریقہ ہے جس پرصحابہ کرام تابعین عظام، ا تباع تابعین اور بعد میں آنے والے وہ ائمہ دین گامزن تھے جن کا تدین اعلی درجہ کوپہنچا ہواہے ا ور جن کی امامت امت کے نزدیک مسلم ہے اور جن کے اقوال وافعال لوگوں کے نزدیک مقبول ہیں۔ نہ کہ ان لوگوں کاراستہ جوبدعت کے کاموں میں ملوث ہیں، لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ القاب سے یاد کیے جاتے ہیں جیسے خوارج، روافض، قدریہ، مرجئہ، جبریہ اور معتزلہ وغیرہ “۔ [2]
لہٰذا ہر پیش روہمارے لیے قابل اقتداء نہیں ہوسکتا، بلکہ نمونہ اور قددوہ وہی سلف صالح ہوسکتے ہیں جومذکورہ اوصاف کےحامل ہوں گے، یعنی صحابہ کرام، تابعین عظام، اور اتباع تابعین جنہوں نے ایسے مبارک عہد میں زندگی گزاری جس کی فضیلت وبرتری کی شہادت خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ساتھ ہی ان ائمہ دین کو بھی قدوہ ونمونہ کی حیثیت حاصل ہے کتاب وسنت سے جن کا تعلق لوگوں کے نزدیک معروف اور جن
[1] الامام ابن تیمىة وقضیة التأویل (ص۵۲)
[2] لوامع الانوار (۱/۲۰) یہی بات قاضی ابن حجری قطری نے بھی کہی ہے اوران سے تائید اً نقل کیاہے، ڈاکٹر مصطفیٰ حلمی نے، ملاحظہ ہو: العقائد السلفیة بأدلتھا العقلیة والنقلیة (ص۱۱) وقواعد المنھج السلفی (ص۲۵۳)