کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 160
بے زار ہونے کےبعد انہوں نے فتنوں کی راہ اپنائی۔ لیکن آپ کے یہاں حال یہ ہے کہ مختلف میں ملوث ہونے کے بعد بھی حنفیت کے اعلی مقام پر فائز رہے۔ خواہ دورقدیم کے فتنے ہوں یا دور جدید کے۔ چنانچہ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی جن کا حاشیہ فقہ کی موجودہ بیشتر کتابوں پر پایاجاتاہے، اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں:
”وبالجملة فالحنفیة لھا فروع باعتبار اختلاف العقیدۃ فمنھم الشیعة، ومنھم المعتزلۃ ومنھم المرجئۃ۔ [1]
یعنی ” مذہب حنفی کے ان فقہاء کے اعتقاد میں بھی اختلاف ہے، ان میں بعض تو شیعہ رافضی ہیں، بعض ان میں معتزلہ بھی ہیں اور بعض مرجئہ بھی ہیں “۔
چنانچہ غسان بن أبان کوفی مرجئہ اور فرقہ غسانیہ کے پیشوا اور امام ہیں، امام محمد بن حسن الشیبانی کے شاگرد ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کے منکرہیں۔ ایمان کے مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہم نوا ہیں۔ [2]
فرقہ مریسیہ کے امام بشر بن غیاث مریسی کے متعلق علامہ مقریزی لکھتے ہیں :
” کان عراقی المزھب فی الفقہ تلمیذا للقاضی أبی یوسف یعقوب الحضرمی “۔
یعنی ”فقہ میں عراقی مذہب کےحامل تھے، قاضی ابویوسف کے شاگرد تھے “۔
امام شافعی رحمہ اللہ سے اس کا مناظرہ ہوا، امام شافعی نے اس کےخیالات کا مذا ق اڑاتے ہوئے ا س سے کہا :
" نصفک کافر لقولک بخلق القرآن ونفی الصفات، ونصفک مؤمن لقولک بالقضاء والقدر وخلق اکتساب افعال العباد۔ “[3]
یعنی: تم آدھے کافر ہوکہ تم قرآن کومخلوق سمجھتے ہو، ا ور صفات باری کی نفی کرتے ہو
[1] الرفع والتکمیل (۲۷، ۲۸ مطیع ابوار محمدی)
[2] الخطط للمقریزی (۲/۳۵۰) دار صادر، نیز ملاحظہ ہو : الفوائد البھیۃ (ص ۲۵)
[3] الخطط للمقریزی (۲/۳۵۰ دار صادر بیروت)