کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 16
پہلی تین صدیوں کوسلف کا نام دیاجاسکتا ہے؟ اور اس دورمیں پائے جانے والے تمام افراد کولائق اتباع وقابل اقتداء سلف کہاجاسکتاہے ؟ بغیر کسی تردد یا پس وپیش کےا س سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ ہر ایک کو بخوبی یہ معلوم ہے کہ اس عہد میں بھی بہت سےخواہشات نفس کی پیروی کرنے والے، بدعتی سرغنہ، ا ور اسلام کالبادہ اوڑھ کرا سلام اورا سلامی تعلیمات کو گزند پہنچانے والے منافقین کاوجود رہاہے، جنہوں نے آئینہ کی ماننداسلام کےصاف وشفاف چہرہ خوداغدار بنانے کی کوشش کی۔ خلیفہ راشد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے عہد میں خوارج کاظہور ہوا، جنہوں نے ۳۷ھ میں واقعہ تحکیم پر اعتراض کرتے ہوئے خلیفہ وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے علیحدگی اختیار کی۔ مقام حروراء میں اپنا مرکز قائم کرکے جس طرح اسلامی خلافت پر شب خون مارتے رہے اسی طرح اسلامی تعلیمات پر بھی شب خون مارا۔ اسلامی عقیدہ وعمل میں نئی نئی باتیں داخل کیں۔ اسی زمانے میں آل بیت کی جھوٹی اور پرفریب محبت کے نام پر عبداللہ بن سبا نے رفض وتشیع جیسی بدعات کی بنیاد رکھی، اور وصیت علی، رجعت علی، بلکہ الوہیت علی اورا سی قبیل کی بے شمار خرافات وبدعات کو رواج دیا۔ [1] اسی طرح معبد جہنی (م ۷۰ھ) نے قدریہ فرقہ کی داغ بیل ڈالی۔ اس نے قضاء وقدر کا انکار کیا۔ اور اسی کے بالمقابل جبر کی بدعت بھی منظر عام پرآئی، جس کی غیلان ومشقی (م ۱۰۵ھ) نے سرپرستی کی۔ اس نے انسان کو مجبور محض بناکررکھ دیا۔ اسی دور میں یا اس کے کچھ ہی بعد جہمیہ اور معتزلہ رونماہوئے۔ جہم بن صفوان (م ۱۲۸ھ) کا استاذ جعد بن درہم (م۱۲۴ھ) اسی عہد کی پیداوار ہے، جوجہمیہ کےا ولین زعماء میں شمار کیاجاتاہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا بڑی شد ومد سے انکار کرتےہیں۔ ا عتزال کا بانی واصل بن عطاء (م ۱۳۱ھ) بھی اس زمانے میں تھا۔ معتزلہ کے بارے میں ہر ایک کو معلوم ہے کہ ان کے یہاں تعقل پسندی بالکل
[1] تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو: راقم کی کتاب ”عبداللہ بن سبأ: عقائد ونظریات کے آئینہ میں ”۔