کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 157
تقلید مروج سے انحراف کے باوجود۔ چنداں متأثر نہیں ہوئے۔ بلکہ یہ لوگ ان جدید اعتقادات اور نئی نئی ایجادی تعبیرات سے برسرپیکار رہے۔ باوجود یکہ علماء متکلمین کو اپنی ذہانت وفطانت پر بڑا فخر وناز تھا، اپنی تحقیقات کے سامنے کسی کوخاطر میں لانےوالے نہیں تھے، لیکن ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے یہی لوگ تھے جنہوں نے عامۃ المسلمین کو تاویل سمیت ان کی مختلف دھاندلیوں سے بچاتے ہوئے کتا ب وسنت کی حمایت کی۔ جب کہ تقلیدی مذاہب پر گامزن لوگوں میں ایسے حضرات کی کمی نہیں ہے جو فلسفہ اور علم الکلام کی خوش گپیوں سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ اعتقادی بدعات کے دور میں ایسے لوگ ملتے ہیں جوحنفی بھی ہیں معتزلی بھی۔ دیگر مذاہب کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔
اسی کےبرخلاف ”غیرمقلد“ کی اصطلاح جس معنی ومفہوم میں مستعمل ہے اس کے اعتبار سے غیر مقلد اس شخص کو کہتے ہیں جو ذہنی آوارگی کا شکار ہو، ہر طرح کی قیود سے آزاد ہوکر محض ہویٰ پرستی کی بنیاد پر کتاب وسنت کی تعبیر وتشریح کا عادی ہو، وہ اپنے آپ کو ائمہ سلف کی روش، ان کے ارشادات اور ان کی تصریحات کا پابند نہ سمجھتا ہو۔
لیکن اہل حدیث خواہ جدید دور کے ہوں یاقدیم دور کے، کسی خاص فرد، امام یا مجتہد کی آراء کی جامد اور کلی پابندی نہ کرتے ہوئے ائمہ سلف کی عام روش اور تصریحات وتشریحات کےا صول وفروع دونوں میں اپنے آپ کو وجوبی طور پر پابند تصور کرتے ہیں۔ ا س حقیقت سے ناآشایہ کی بناء پر بعض اہل حدیث حضرات لفظ غیر مقلد کوگوارا کرلیتے ہیں جس کی بنائ پر مولوی محمد ابوبکر غازی پوری جیسے لوگوں کویہ کہنے کا موقع مل جاتاہے کہ یہ لوگ اپنے لیے غیر مقلد کا لفظ بھی اختیار واستعمال کرتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ لفظ اہلحدیثوں کااپنا اختیار کردہ نہیں بلکہ مخالفین کا دیاہوا لقب ہے، جس کے معنی ہیں ذہنی آوارگی کا شکار۔ جب کہ اہلحدیث کتاب وسنت کی تعبیر وتشریح میں ائمہ سلف کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں اصول وفروع میں کوئی مسئلہ ایسانہیں پایاجاتا جومنہج سلف یا