کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 153
”ومعنی انتسابہ إلی الشافعی أنہ جری علی طریقتہ فی الاجتھاد واستقراء الأدلة ترتیب بعضھا ووافق اجتھادہ، وإذاخالف 1أحیانالم یبال بالمخلفة، ولم یخرج عن طریقہ إلا فی مسائل، وذلک لایقدح فی دخوله فی مذھب الشافعی۔ “ [1]
یعنی امام شافعی کی جانب نسبت اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اجتہاد، دلائل کی بحث وجستجو، ا ور مختلف دلائل کی باہم ترتیب میں امام شافعی کے طریقہ کو اختیار کیاتھا۔ اور ان کے اجتہاد کی موافقت کی تھی اور اگر امام شافعی کےا جتہاد سےا ن کا اجتہاد مختلف رہا تواس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی، چندمسائل ہی میں انہوں نے امام شافعی کےا صول اور طریقے سے خروج کیا۔ ا ور یہ چیز ان کو مذہب شافعی میں شمار کرنے کےلیے خارج نہیں بن سکتی ہے۔
یہ صرف ایک عالم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بیشتر اہل علم کاجوکسی امام کی جانب منسوب ہوتے ہیں یہی حال ہے۔ چنانچہ آپ ایک دوسری جگہ ائمہ اربعہ کی جانب منسوب لوگوں کی قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”ایک توعوام ہیں۔ دوسرے وہ جو رتبۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے ہیں، (ان کے مقلد ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ) ایک مجتہد دوسرے مجتہد کا مقلدنہیں ہوسکتا۔ ائمہ کرام کی جانب سے ان لوگوں کی نسبت ان کے طریقہ ٔا جتہاد اور طرز استدلال میں موافقت کی وجہ سے ہے۔ “ [2]
یعنی محض طریقہ اجتہاد اور طرز استدلال میں مواقفت کی وجہ سے امام کی جانب منسوب کردیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم بیشتر اہل علم خودیکھتے ہیں کہ کسی ایک امام کی جانب منسوب ہونے کے باجوود بہتیرے مسائل میں مذہب کے برخلاف کسی دوسرے
[1] الانصاف (ص۷۶ تحقیق ابوغدہ)
[2] عقد الجید (ص ۸۱، تحقیق محمد علی الحلبی، دارالفتح، شارقہ )