کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 152
عظیم مجرموں میں سے کسی ایک پر آپ کو کسی طرح بھی مطعون نہیں کیاہے اور نہ کسی طرح آپ پر نکیر کی ہے، البتہ بعض دوسرے ناحیوں سے آپ پر کلام کیاگیاہے ۔ چنانچہ احادیث میں لحن اور غلطیوں پر اصرار اور فقہ سے عدم دلچسپی کی بات آپ کے متعلق کہی گئی ہے۔ اور دارقطنی نے آپ کی ثقاہت پر بھی کلام کیاہے جب کہ دیگر ائمہ حدیث نے آپ کو ثقہ قراردیا ہے۔ [1] سطور بالا سے جوچیز واضح ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ سابقہ ادوار میں تقلید کے رواج کے باوجود ”غیر مقلد“ کا لفظ ایجاد نہیں ہواتھا اور نہ ہی اس وقت ایسی کوئی ضرورت محسوس کی گئی کہ یہ لفظ ایجاد کیاجائے۔ اسی طرح تقلید بھی کوئی قابل فخر لقب نہیں تھا جس کے ترک کو معیو ب سمجھاجاتا، یاکم از کم اس پرا فسوس کا اظہار کیاجاتا، چہ جائیکہ اس کو فتنہ کا نام دیاجاتا اور دین کے لیے اسے ایک خطرناک چیلنج کی حیثیت سے متعارف کرایاجاتا۔ لیکن صورتحال میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہی یہاں تک کہ ائمہ کرام کے ساتھ عقیدت ومحبت نے مبالغہ اور غلو کی راہ اپنا کر تقلید جامد کی شکل اختیار کرلی، اور امام کے قول سے سرموانحراف، ا ور ان میں رائے سے اختلاف کو بے دینی اور بے راہ روی سے تعبیر کیاجانے لگا، جوروح اسلام کے سراسرمخالف اورعین منافی ہے۔ یہاں کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کیاوجہ ہے کہ ہم بیشتر متقدمین علماء امت کوبھی ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی جانب منسوب پاتے ہیں جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کےمقلد تھے۔ ائمہ کرام کی جانب علماء امت کے انتساب کی حقیقت کوجاننےکےلیے ہم شاہ الی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جس میں آپ ایک اہل علم کوفقہاء شافعیہ میں شمار کرنے کامفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
[1] ملاحظہ ہو: سیرا علام النبلاء (۱۶/۴۳۳)