کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 15
”(مذکورہ مسئلےمیں ) قطعی اور صحیح موقف میرےخیال میں یہ ہے کہ سلف کی تحدید میں پہلی تین صدیوں سےہمیں تجاوز نہیں کرنا چاہیے، متقدمین کےبارے میں خواہ ہم کتنا ہی حسن ظن رکھیں لیکن تیسری صدی ہجری کے بعد رونما ہونے والے آراء وافکار کوسلفی قرار نہیں دیاجاسکتا، کیونکہ اسلامی سرمایہ کوتیسری صدی کے بعد سھے ہی جھٹکے لگے ہیں اور نفس پرستی کا بازارگرم ہواہے “۔ [1]
دوسرےمحقق ڈاکٹر محمود خفاجی رقمطرازہیں :
”میری رائے میں صحابہ وتابعین اور اتباع تابعین کے ساتھ ہی سلف کی تخصیص زیادہ صحیح ہے، کیونکہ لغت اور حدیث دونوں سے ہی اسی کی تائید ہوتی ہے“۔ [2]
4۔ سلف کی اصطلاحی مفہوم کی تعیین سےمتعلق ایک چوتھا قول بھی ہے جس کو مشہور اشعری عالم ابراہیم بن محمد بیجوری (م ۱۲۷۷ھ ) نےاختیار کیاہے، ان کے قول کےمطابق پانچویں صدی ہجری سے ماقبل علماء پرسلف کا اطلاق ہوتاہے۔ [3]
شایدموصوف اپنے اس قول کے ذریعہ اشعری علماء کو بھی سلف کے زمرہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اور امر واقع یہ ہے کہ تمام اشعری علماء تیسری صدی ہجری کےبعد ہی پیدا ہوئے، خود امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ جن کی جانب اشاعرہ اپنے آپ کو منسوب کرتےہیں کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ بظاہر اور کوئی دوسری وجہ اس قول کی نظر نہیں آتی ہے، ا ور نہ ہی کسی دلیل سے اس کی تصدیق وتائید ہوتی نظر آتی ہے۔
کیامفہوم سلف کی تحدید میں محض زمانہ کا اعتبار کافی ہے ؟
مذکورہ اقوال پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عمومی طور پر سلف کے مفہوم میں زمانہ کا اعتبار کیاگیاہے، اور حدیث سے بھی بظاہر یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے مفضلہ سے متعلق وارد حدیث کوبنیاد بناکر علی الاطلاق
[1] الامام ابن تیمیة وقضیة التأویل (ص ۵۲)
[2] العقیدۃ الاسلامیة بین السلفیة والمعتزلة (ص۲۰)
[3] تحفة المرید شرح جوھرۃ التوحید (ص۹۱)