کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 147
یعنی ابن بشکوال حفظ ومعرفت، ا ستحضار علم اور حاضر جوابی میں تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے تھے، علماء کے اختلاف اور مذاہب کی ترجیح کے بارے میں ان کو کافی تفقہ حاصل تھا، احادیث وآثار کے بھی حافظ تھے، کتاب وسنت میں غور وفکر اور ان سے خود استخراج واستنباط کا رجحان رکھتےتھے۔ پہلے امام شافعی کے مذہب کی جانب ان کا میلا تھا، پھر اسے ترک کردیا، ان کے کچھ تفردات تھے جن میں وہ اپنے ہم وطن علماء کےخلاف فتوی دیتے تھے۔
گویاعصرحاضر کے اعتبار سے دو بڑے جرم کا ارتکاب کیاتھا (۱) ترک تقلید، (۲)شاذ اقوال کا اختیار۔ ا س کے باوجود ان کے ترجمہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جس کی بنیاد پر کہاجاسکے کہ ان کا یہ عمل ہم عصر علماء کے نزدیک معیوب اورقابل نفرت تھا۔ بلکہ اس کے برخلاف ابن فرحون آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :
”وکانت لہ دعوات مستجابۃ، وأعمال من البر صالحۃ“
یعنی آپ کے مستجاب الدعوات ہونے کی شہادت دی گئی ہے، اور آپ کے یہاں بکثرت اعمال صالحہ کے پائے جانے کی خبر ہے۔ [1]
۶۔ عبداللہ بن محمد بن جعفر بن حیان أبو الشیخ الأصفہانی (ت ۳۶۹ھ)
”قدکان۔ ۔ ۔ من العلماء العاملین صاحب سنة واتباع “ [2]
یعنی عالم باعمل، متبع سنت اور حدیث سے شغف رکھنے والےتھے ۔
آپ نے کسی امام کی تقلید نہیں اختیار کی تھی، جتنے لوگوں نے آپ کی سوانح لکھی ہے اس جانب اشارہ کیا ہے، ا ور یہی وجہ ہے کہ علم ومعرفت اور زہد ورع میں کافی اونچا مقام رکھنے کے باوجود مذاہب کی سیر وسوانح سے متعلق مخصوص کتابوں میں آپ کا تذکرہ
[1] الدیباج المذھب (۲/۲۳۵) نیز ملاحظہ ہو : الصلۃ (۲/۵۱۰۔ ۵۱۲)
[2] سیر اعلام النبلاء(۱۶/۲۷۹) ابوالشیخ الاصفہانی سے متعلق مضمون ملاحظہ ہو: محدث بنارس شمارہ بابت اکتوبر تا دسمبر ۹۶ء ومئی ۹۷میں