کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 144
ہو۔ ذیل میں بعض ایسی شخصیات کا تذکرہ کررہے ہیں جنہوں نے واضح طور پر تقلید کی راہ نہیں اپنائی، یا اولاً کسی امام کے مقلد تھے لیکن بعد میں چل کر تقلید کوترک کردیا۔ اس کے باوجودان کے سوانح نگاروں نے ترک تقلید کے تعلق سے ان کے بارے میں کوئی ناپسندیدہ بات نہ تو خود کہی اور نہ کسی دوسرے سے نقل کی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ترک تقلید ایساگناہ نہیں ہے جس پر اتناواویلا مچایاجائے۔ اور اسے ہر فتنہ کی جڑ قرار دیاجائے، ترک تقلید کےخلاف یہ ساری سرگرمیاں موجودہ دور کی پیداوار ہیں۔ ۱۔ ابراہیم بن حسین بن خالدأبواسحاق (ت بعد۲۴۰ھ) علامہ ابن فرحون مالکی نے لکھاہے : کان یذھب إلی النظر وترک التقلید یعنی ترک تقلید اور کتاب وسنت میں غور وفکر کے ذریعہ مسائل کا استخراج واستنباط ان کا مذہب تھا۔ ”کان خیرا فقیھا۔ ۔ (وھو) مذکور فی المالکیة، عالم بالفقہ بصیر بطرق الحجة “ یعنی صاحب خیر اور فقیہ تھے، مالکیہ میں ان کو شمار کیاجاتاہے، انہیں فقہ کی معرفت اور طرق استدلال کی مکمل بصیرت حاصل تھی ۔ [1] ۲۔ قاسم بن محمد قاسم ابومحمد القرطبی ( ت۲۷۶ھ یا ۲۷۷ھ یا۲۷۸ھ) آپ کے بارے میں ابن فرحون لکھتے ہیں : 'ولزم محمد بن الحکم والمزنی للتفقه والمناظرۃ، حتی برع فی الفقہ، وذھب الحجة والنظر وعلم الاختلاف “۔ یعنی فقہا ور مناظرہ کا علم حاصل کرنے کے لیے محمد بن الحکم اور مزنی کی رفاقت
[1] الدیباج المذھب (۱/۲۵۹، ۲۶۰ تحقیق د /ابوالنور)