کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 143
حاصل تھی، اور ان کا بوقت ضرورت اہل حدیث، اصحاب الحدیث اور اصحاب الآثار وغیرہ ناموں سے ذکر خیر کیاجاتاتھا۔ بعض اہل علم جنہوں نے راہ تقلید کی آبلہ پائی نہیں اختیار کی جیساکہ عرض کیا گیا : تقلیدکورواج حاصل ہونے کے بعد (خواہ کسی بھی دور اورزمانے میں ہوا ہو) ہمیشہ علماء کی ایسی جماعت پائی گئی ہے جنہوں نے تقلید کی وادی میں قدم نہیں رکھا، یا قدم رکھا لیکن ا س کی صعوبت اور دشوار گزاری کا احساس ہوتے ہی الٹے پاؤں واپس ہوگئے، ا ور باوجود یکہ تقلیدی مذاہب واصولی فرقوں کے مابین رسہ کشی، باہمی نزاعات اور خصومات اور دل خراش داستانیں تاریخ کے صفحات نےا پنے سینوں میں محفوظ کر رکھی ہیں، کہیں آگے چل کر تقلیدی مذاہب کے نزاعات کی بعض خونچکاں داستانیں بیان کی جائیں گی، لیکن سردست یہاں ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس افسوسناک وغیر معمولی صورت حال میں بھی ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے یہ پتہ چلت کہ ترک تقلید کو پچھلے دور میں عیب سمجھاجاتا تھا، یاترک تقلید کوکم از کم قابل افسوس عمل ہی گردانا جاتاتھا اور تارکین تقلید کو غیر پسند یدہ نگاہ سے دیکھاجاتاتھا، یا انہیں غیر مقلد، یا لامذہب جیسے القاب سے نوازا جاتا تھا۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ائمہ معقول وفلاسفہ ومتکلمین ”ائمہ اہل سنت کو فقیہ ہوں یا غیر فقیہ، مجتہد ہوں یا غیر مجتہد ”مقلد“ کہتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک منقولات کا مقام کسی طرح بھی ظن سے اونچا نہیں ہے۔ امام غزالی ” فیصل التفرقة بین الاسلام والزندقة “ میں لکھتے ہیں :” اگر کوئی ان الزامات کے جواب سے عاجز آجائے تو وہ صاحب نظر نہیں بلکہ ”مقلد کی شرط یہ ہے کہ وہ خود خاموش رہے، یا اس سے خاموشی اختیار کرلی جائے “ [1]اس کے برعکس ہم تقلیدی مذاہب پر گامزن لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے تارکین تقلید کو کسی غیر پسندیدہ لقب سے ملقب کیا
[1] ملاحظہ ہو تحریک آزادی فکرا ور شاہ ولی اللہ کی تجدید ی ماعی(ص ۱۶۵) طہ دارالعلمیہ