کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 142
ایک تیسرے بڑے عالم جن کو دنیائے حنفیت کا مجدد کہاجاتاہے کا بھی ایک بیان جومخصوص طور پر تقلید سے متعلق تونہیں ہے ذکر کردیناخالی از فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے ہماری بات کی تائید وتصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :” لاحجة فی الشیوع والکثرۃ بعد عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فإن العبرۃ بماکان فی عھدا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم صاحب النبوة[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد کسی چیز کی شہرت اور کثرت کوحجت ودلیل نہیں بنایاجاسکتا، ا س لیے کہ اعتبار اسی امر کا ہوگا جوصاحب نبوت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں موجود تھا“ ۔ آج ترک تقلید کی اتنے زور وشور سے مذمت کی جارہی ہے، وجوب تقلید کے منکرین کوبرا بھلا کہاجارہاہے توآئیے ذرا تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھاجائے کہ کیا پچھلے ادوار میں بھی جس میں تقلید کے رواج پر علماء امت کے اجماع کا دعویٰ کیاجاتاہے ترک تقلید یا تارکین کےخلاف اسی جدوجہد اور سرگرمی کا مظاہرہ کیاجاتاتھا جس سرگرمی اور جدوجہد کا مظاہرہ آج کے دور میں کیاجارہاہے، ا ور ترک تقلید کو اتنا ہی برا سمجھا جاتاتھا جتنا آج سمجھا جارہاہے ؟ توتاریخ وسیر اور طبقات کی کتابوں کے مطالعہ سے ا س امر کا بخوبی پتہ چلتاہے کہ تقلید پر دعویٰ اجماع کے باوجود ( خواہ وہ تاریخ کے کسی دور میں ہواہو) ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے لوگوں کاوجود رہاہے جومروجہ تقلید کے پابند نہیں تھے۔ بلکہ ہمیں تاریخ کی کتابوں میں ایسی نظیریں بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ بہت سے ایسے علماء بھی گزرے ہیں جنہوں نے ابتداءً کسی امام کی تقلید اختیار کی، لیکن بعد میں اسے ترک کردیا۔ ا لبتہ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ ان علماء پر نکیر کی گئی ہو، یا انہیں طنز وتعریض اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیاہو۔ بلکہ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے علماء اپنے وقت میں دینی قیادت اور امامت کے مقام پر فائز تھے علماء اور عوام کی نظر میں ان کو عزت
[1] فیض الباری شرح البخاری (۳/۲۴۸)