کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 14
مشہور حنبلی عالم علامہ ابن رجب (م۷۹۵ھ)نےبھی امام احمد بن حنبل اور ان کےعہد تک کےائمہ کرام کوسلف قرار دیاہےجوبعد کے لوگوں کےلیے قد وہ اورنمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ”امام شافعی (م۲۰۴ھ)امام احمد بن حنبل (م۲۴۱ھ) امام اسحاق بن راہویہ (م۲۲۱ھ)امام ابوعبیدہروی (م۲۲۴ھ)رحمہم اللہ یا ان موصوفین کےعہد تک پائے جانے والے علماء ہی متعین طور پر ایسے قابل اقتداء سلف شمارکیے جاسکتے ہیں جن کے زریں اقوال کواس زمانہ میں قلم بند کرناضروری ہے، چونکہ ان موصوفین کے بعد بے شمار ناخوشگوار واقعات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، اس لیے ہرشخص کومکمل طورپرمحتاط رہنا ضروری ہوگیاہے“۔ [1] بظاہر ایسامعلو م ہوتاہے کہ موصوف نےا پنے پیش رو علامہ آجری (م ۳۶۰ھ) سے متاثر ہوکر یہ بات کہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے بھی تقریباًیہی بات تحریر فرمائی ہے، اور لائق اتباع سلف امام احمد اور ان کے دورتک پائے جانے والے علما ء کرام کوقراردیاہے۔ چنانچہ کسی بھی شخص کے ہدایت یاب ہونے اور راہ حق پر گامزن ہونے کی علامت اور پہچان کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”کسی بھی فرد کےلیے اس راہ ارست کا اختیار کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں خوش بختی مقرر فرمادی ہے، یعنی کتاب وسنت کی اتباع، صحابہ کرام اور تابعین عظام کے نقش قدم کی پیروی، ا ئمہ اسلام اورعلماء امت امام اوزاعی (م ۱۵۷ھ) سفیان ثوری (م۱۶۱ھ)مالک بن انس (م ۱۷۹ھ) امام شافعی، ا حمدبن حنبل، قاسم بن سلام رحمہم اللہ وغیرہم کا مذہب اپنانا اورہر اس مذہب اورطریق کار سے گریز جس کوعلماء موصوفین نے اختیار نہ کیاہو“۔ [2] بعض معاصر محققین نے بھی اسی قول کو اختیار کیاہے جس میں سلف کو ابتدائی تین صدیوں کے ساتھ مخصوص ماناگیاہے۔ چنانچہ ایک محقق ڈاکٹر محمد جلیندلکھتےہیں :
[1] فضل علم السلف علي علم الخلف (ص ۶۰) [2] الشریعة(ص ۱۴)