کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 139
گیاہے۔ عصر حاضر کے ایک بڑے محقق نے قیاس کی مشروعیت پر دلیل دیتے ہوئے فرط جذبہ تحقیق میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوقیاسی قرار دے دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قیاس سے کام لیتے تھے [1] جوش وجذبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت اور مقام ومرتبہ کوبھول گئے یا بھلا دیا، ا ور یہ بھی ہوش نہیں رہاکہ قیاس کی کب اور کس کوضرورت پڑتی ہے ؟ اصول فقہ کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ”لاقیاس مع النص “( نص اور وراضح دلیل کے ہوتے ہوئے قیاس کی کوئی ضرورت وحاجت نہیں ہوتی) اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی نص شرعی ہوتی ہے ۔ [2] جب صورتحال یہ ہے تو کیا بعید کہ آنے والے زمانہ میں یہ ثابت کیاجانے لگے کہ تقلید جیسی مذموم اور غیر مستحسن چیز عہد نبوی میں بھی موجود تھی۔ (نعوذ باللہ من ذلک) جس طرح تقلید کی مشروعیت کومختلف ذرائع ووسائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی یا کی جارہی ہے اس سے کہیں زیادہ عدم تقلید کے عدم تسلیم کومذموم اور قابل نفریں عمل کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسے نہ صرف غیر اسلامی عمل قرار دیاجارہاہے، بلکہ اسے ہرفتنہ کی جڑا ور بنیاد قرار دیاجارہاہے۔ ا نہی مختلف کوششوں اور سرگرمیوں میں سے مجلہ المآثر مؤج ۶ش ۴ (ص۱۵) میں ”غیر مقلدیت کابانی اور ترک تقلید کے مہلک نتائج “ کا وہ دل آزار مضمون بھی ہے جوکسی ڈاکٹر محمدی توحید مرزا پوری کے قلم سے سپرد قرطاس کیاگیاہے۔ مضمون میں علماء اہل حدیث خصوصاً مولانا عبدالحق محدث بنارسی اور میاں سید نذیر محدث دہلوی رحمہ اللہ کو سب وشتم کاخوب نشانہ بنایاگیاہے۔ ا ور بڑی بے
[1] ملاحظہ ہو: غیر مقلدین کی ڈائری (ص۱۷۳) [2] اس مزعومہ کی تردید ملاحظہ ہو”تقلید کے برھ وبار“ ازقلم ڈاکٹر محمد یونس ارشد بلرامپوری قسط نمبر۹ میں، منشور در جرید ترجمان بابت ۲۷نومبر ۴، دسمبر۹۸ (ص ۲، ۲۲) موصوف محقق نے جس حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیاسی ہونے پرا ستدلال کیاہے اس میں صرف اتنی سی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیہ کو ان کی ایک ایسی بہن کی وفات پر جن کےذمہ مسلسل دومہینہ کے روزے تھے قرض سے تشبیہ دیتے ہوئے فوت شدہ روزوں کی قضا کاحکم دیاتھا۔ تاکہ مسئلہ ان کو اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ بیشتر مواقع پر آپ نے مثالوں کے ذریعہ دین کے مسائل کوواضح کیاہے اس چیز کومحقق موصوف نے قیا س کا نام دے دیا اور کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قیاس سے کام لیتے تھے۔