کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 138
میں تقلید کورواج حاصل ہوا؟ ا س بحث کوختم کرنے اور تقلید کی مشروعیت کوثابت کرنےکےلیے عہد صحابہ سے ہی تقلید کا ڈانڈاملادیاگیا۔ چنانچہ جس چیز کوصحابہ کرام اور ائمہ عظام مبغوض ومکروہ سمجھتے تھے، ا سی کو ان کے سر مڑھ دیاگیا، ا ور کہا گیاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے عہد میں تقلید شخصی اور تقلید غیرشخصی جس کو وہ تقلید معین اور تقلید غیر معین کا بھی نام یتے ہیں رواج تھا، [1]ا س کے لغوی، ا صطلاحی اور عرفی مفہوم کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی، ا ور نہ صحابہ وتابعین کی عظمت وعلو مرتبت کا پاس ولحاظ رکھاگیا۔ میں اس تفصیل میں نہ جاکر مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی تالیف کردہ کتاب ”مسئلہ تقلید پر تحقیقی نظر“کے مراجعہ کی گزارش کروں گا۔ [2]
ایسالگتاہے کہ جوش وجذبہ میں کہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی تقلید کوثابت نہ کرنے لگ جائیں۔ ا بھی تک تو تقلید شخصی کاوجوب از منہ مابعد قرون مفصلہ میں اجماع امت کے ذریعہ ثابت کیاجارہاتھا اب اس کو ذرا آگے بڑھا کر عہد تک پہنچادیاگیاہے اور اس کے وجوب کومتعدد آیات واحادیث سے ثابت کیاجانے لگا ہے۔ کچھ دن بعد ذرا آگے کھسکا کر عہد نبوی میں بھی اس کو ثابت کیاجانےلگے گا، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل کے ذریعہ تبلیغ قرآن کی توضیح وتشریح کی بھی ذمہ داری مکمل طور پر ادا کردی تھی۔ اسی بناء پرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے متعلق فرمایاتھا : کان خلقه القرآن۔ ۔ ”من جملہ تعلیمات قرآن کے (بقول آپ کے) وجوب تقلید بھی ہے۔ قارئین کرام اس کا برا نہ منائیں، کیونکہ ان لوگوں سے کوئی چیز بعید نہیں ہے۔ اثبات تقلید میں انہی لوگوں کی جانب سے ایک آیت کریمہ میں مبینہ طور پراضافہ کا ارتکاب کیاگیاہے۔ اور میرے اپنے علم کی حد تک ابھی تک اس اضافہ کوبرقرار بھی رکھا
[1] ملاحظہ ہو: محاضرہ علمیہ برموضوع رد غیر مقلدیت ج ۲ص ۳۲ ومابعدھا
[2] بعض دلائل کاجواب ملاحظہ فرمائیں (ص۳۸) میں