کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 137
اس کے بے محل مستعمل ہونے کی صرف بات نہیں ہے، بلکہ اس لفظ کے اصطلاحی وعرفی مفہوم بھی قابل غور ہیں، ان کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ پوری اصطلاح ہی بے محل ہے۔ کیونکہ اس کی تعریف میں عدم علم بطور ایک جزؤلاینفک کےموجود ہے۔ [1]
اورا س کو کسی دوسرے لفظ سے بدلنے کی جوبات کہی گئی ہے تواس کی بھی چنداں ضرورت نہیں، اتباع، ا طاعت جیسے الفاظ اس طرح کے مواقع میں انسانی فطرت کی ترجمانی کے لیے کافی ہیں۔
متعدد اہل علم نے مقلد کوعالم نہ شمار کرنے پر تمام لوگوں کا اتفاق نقل کیاہے۔ کیونکہ علم کااطلاق دلیل سے حاصل ہونے والی معرفت پر ہوتاہے جب کہ بلادلیل معرفت کوتقلید کا نام یاجاتاہے۔ [2] جب لفظ ”تقلید“ اپنے لغوی معنی مفہوم اور صحابہ وتابعین اور علماء امت (بشمول ائمہ اربعہ) کےا ستعمال کے اعتبار سے ناخوشگوار اور غیر پسندیدہ ٹھہرا تواس لفظ کے مقابلے میں عدم تقلید اورترک تقلید کے الفاظ لازمی طور پر خوشگوار اور پسندیدہ حیثیت کے حامل قرار پائیں گے، لیکن مردوزمانہ کے ساتھ جب متعدد احکام شریعت میں لوگوں نے تغیر وتبدل سے کام لیا، بہت سی سنتوں کو بدعتوں کوسنتوں میں تبدیل کردیا تو لفظ ”تقلید“ کےساتھ بھی اسی قسم کا حشر کیاگیا۔ یعنی مبغوض وناپسندیدہ ہونے کے باوجود اسے دین اسلام کے ایک مجمع علیہ رکن کی حیثیت حاصل ہوگئی، ا ور وہ بعد کے ادوار میں پسندیدہ اور مرغوب فیہ قرار دے دیاگیا ہےا ور اسے عین مطلوب اسلام بنادیاگیاکہ اس سے خروج اسلام سےخروج کے مترادف ہے۔ اور اسی طرح اس کے بالمقابل عدم تقلید اور ترک تقلید کو حددرجہ مکروہ اور ناپسندیدہ حیثیت حاصل ہوگئی کہ اس کو تمام فتنوں کی جڑ قرار دیا جانے لگا۔ ابھی تو علماء ومحققین تقلید کوکب اور کہاں رواج حاصل ہوا؟ اسی گتھی کو سلجھانے میں لگے ہوئے تھے اور فیصلہ نہیں کرپارہےتھے کہ دوسری صدی یا چوتھی صدی
[1] تقلید کی جتنے لوگوں نے اصطلاحی تعریف کی ہے ہر ایک کی تعریف کا یہی مفہوم نکلتاہے جکہ حجت وبرھان اور دلیل کی معرفت حاصل کیے بغیر دوسرے اقوال کولازم پکڑنا تقلید کہلاتا ہے۔
[2] مسئلہ تقلید پر تحقیقی نظر (ص۷/۱۷)