کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 136
فإنه لاأسوۃ فی الشر [1] (کوئی شخص اپنے دین کے بارے میں کسی کی اس طرح تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تووہ بھی ایمان لائے، اور اگر وہ کفر اختیار کرے تو وہ بھی کفراختیار کرے اس لیے کہ شر اور برائی میں کسی کو اسوہ اور نمونہ نہیں بنایاجاسکتاہے ) عبیدا للہ بن المعتز سے مقنول ہے : لافرق بین بھیمة تنقاد وإنسان یقلد[2] (ایک منقادر وفرمانبردار چوپایہ اور ایک مقلد انسان کے مابین کوئی فرق نہیں ہے) اسی طرح ائمہ اربعہ اور دیگر علماء سلف (رحمہم اللہ اجمعین) کےتقلید سے متعلق بیانات [3]پرغور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ ان کے یہاں بھی کسی خوشگوار معنی ومفہوم میں نہیں استعمال کیاگیاہے، اور نہ ہی ا ن کے یہاں اس لفظ کو کئی مستحسن یا پسندیدہ حیثیت حاصل ہے، اگرحقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے لفظ ”تقلید“ کے لغوی معنی عرفی اور اصطلاحی مفہوم پر ہی غور کیاجائے توبھی اس کی قباحت وشناعت کا اندازہ بخوبی وبآسانی لگایاجاسکتاہے، یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد تقی عثمانی نے فاران کراچی (۱۹۶۵ء) میں اپنے ایک مضمون جو”تقلید کی شرعی حیثیت“ کےعنوان سے شائع ہوا تھا، میں مروجہ تقلید پر اپنےخیالات کا اظہار کرتے ہوئے لفظ تقلید کے لغوی معنی سے براءت کا اظہار کیاہے اور فرمایا ہے:” اس کےلیے کوئی اور لفظ ہونا چاہیے “اسی طرح آپ نے اس لفظ ”تقلید“ کے استعمال کو بے محل بھی قرار دیاہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لفظ کے لغوی مفہوم سے براءت یا
[1] جامع بیان العلم (۲/۱۱۴) اعلام الموقعین (۲/۱۹۵) [2] جامع بیان العلم (۲/۱۱۴) ایقاظ الھمم (ص۳۸) [3] تقلید سے متعلق ائمہ کرام کےا قوال یکجا طور پر مقدمہ صفۃ صلاۃ النبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) للالبانی (ص۲۳ ومابعدھا، ط :۱۱، سن ۱۴۰۳ھ) میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں، معلوم ہوکہ ایک نے واضح طور پر اپنی تقلید سے روکا اور منع کیاہے جب تک کہ ان کےا قوال کے مآخذ اور دلائل کا علم نہ ہوجائے، اور قرآن وحدیث سےتصادم اور ٹکراؤ کی صورت میں اپنے اقوال کو ترک کردینے کی تلقین کی ہے۔