کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 135
کیا ترک تقلید ایک قابل مذمت فتنہ ہے ؟ ہم یہاں تقلید کی شرعی حیثیت پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ دونوں جانب سے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکاہےا ورلکھاجارہاہے۔ مجھ جیسے شخص کے لیے اس پر مزید اضافہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اسی طرح ”غیر مقلد “اصطلاح کب اور کس کے ذریعے رائج ہوئی ؟ بروقت ہمارے لیے اس کی تحدید وتعین بھی قدرے مشکل امر ہے۔ البتہ لفظ تقلید کا استعمال ہمیں عہد صحابہ سے ہی ملتاہے لیکن انہوں نے یا ان کے بعد تابعین عظام نے کسی ایسے اسلوب میں اس کاذکر نہیں کیاہے جس سے معلوم ہوکہ یہ لفظ کوئی بہت مستحسن اور قابل تعریف حیثیت کا حامل ہے۔ بلکہ اس کے برخلاف صحابہ وتابعین کی وضاحتوں سے صراحتاً، یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے یہاں یہ لفظ ایک غیر مستحسن بلکہ مبغوض حیثیت کا حامل ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے متفقہ طور پر تقلید سے ممانعت اور اس کی مذمت میں آثار مقنول ہیں، جن کو علامہ ابن عبدالبر اورحافظ ابن القیم وغیرہ نے جمع کیاہے۔ بطور مثال چند اقوال پیش خدمت ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں : اغد عالماأومتعلما، ولاتغدإمۃفیما بین ذلک “۔ [1] (ایک عالم یا ایک طالب علم کی راہ اختیار کرو، ان دونوں کے بیچ میں ”امعی“ مت بنو) امعی: اس شخص کو کہتے ہیں جوتقلید کی راہ اپنائے، یا ایسے شخص کو کہتےہیں جو عزم وارادہ اور رائے سےخالی ہو۔ [2] آپ ہی سے یہ بھی منقول ہے : ”لایقلدن أحدکم دینہ رجلا۔ إن آمن آمن، وإن کفرکفر،
[1] جامع بیان العلم وفضلہ (۲/۱۱۲، ط :المنیریۃ )، اعلا م الموقعین (۲/۱۹۴، تعلیق طہ عبدالرؤف)، وایقاظ الھم (ص۳۶) [2] (اعلام المعوقعین (۲/۱۹۴) وایقاظ الھم (ص۳۸)