کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 133
نام ایسے ہیں جنہیں ائمہ سلف اور علماء امت عرصہ سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ ا نہوں نے ان اسماء والقاب کے اختیار وانتخاب میں کسی جدت پسندی کا ثبوت بھی نہیں دیا ہے۔ لیکن مخالفین کو یہ چیز پسند نہیں آئی بلکہ بعض محققین عصر کو اس میں پینترے بازی نظر آتی ہے، لہٰذا ان کے اپنے اختیار کردہ ناموں سے پکارنے کے بجائے دوسرے نامناسب اور غیر پسندیدہ نام دے کر انہیں پکارنا اور عوام میں مشہور کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ تقلید کو واجب اور ضروری نہ تسلیم کرنے کی وجہ سے انہیں ”غیر مقلدین “اور ترک تقلید کو”غیر مقلدیت“ کا نام دیاگیا، ا ور اس کو اس حددرجہ قبیح بناکر پھیلایاگیا کہ عوام کی نظر میں ترک تقلید کو کفر وشرک سے بھی بدتر گناہ سمجھا جانے لگا۔ ا ور غیر مقلدین (بمعنی تارکین تقلید) ان کی نظر میں کفار ومشرکین سے بھی بدتر سمجھے جانے لگے ۔ چنانچہ کسی مقلد شخص کا تقلید ترک کرکے جماعت اہل حدیث میں شامل ہوجانا کافر ہوجانے سے بھی زیادہ سخت ناگوار اور تکلیف دہ ان کو معلوم ہوتاہے۔ [1]
عوام توعوام خواص بھی ایسی جماعتوں کے ساتھ جن کے یہاں علی الاعلان شرکیہ مظاہر پائے جاتے ہیں اہلحدیثوں کےخلاف مفاہمت اور تعاون کےلیے آمادہ اور تیار نظر آتے ہیں بلکہ ان کے قائدین وزعماء کوخط لکھ کر اہلحدیثوں کے مقابلہ میں متحد ہوجانے کی عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے دکھلائی دیتے ہیں۔ [2]
ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈہ مہم بھی چلائی گئی کہ اہلحدیثیت جسے وہ غیر مقلدیت کہتے ہوئے
[1] ملاحظہ ہو: قرۃ العینین بأحادیث رفع الیدین مولفہ مفتی فیض الرحمٰن فیض (ص۱۳)۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنے ایک بزرگ کےبارے میں لکھتے ہیں کہ وہ کہا کرتےتھے کہ ”انسان عیسائی ہوسکتا ہے لیکن غیرمقلد نہیں ہوسکتا“ یادرفتگاں ص۲۴ طبع دوم سن ۱۹۸۶م۔
[2] ملاحظہ ہو:اسلاف دیوبند اور انگریزی حکومت ازقلم عبدالخالق قدوسی (ص۴۵۔ ۴۶) مطوبع ضمن علامء دیوبند اورا نگریز) جس میں ”سیرت مولانا سید محمد مونگیری “(ص ۱۷۱) کےحوالہ سے مولانا موصوف کا بنام احمد رضاخان سے عاجزانہ طور پر کچھ کرنے کی درخواست کی ہے اور شاید اسی کی تقلید میں آج بھی اہلحدیثوں کی سرگرمیوں پر مضبوط قدغن لگانے کےلیے مختلف ملکی وغیرملکی جہتوں میں خطوط لکھے جارہے ہیں۔