کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 129
کذب وبہتان میں کئی گنا بڑھی ہوئی ہے۔ میرےخیال میں ا س آخری افتراء پر دازی میں فاضل مؤلف کے ہم پیالہ وہم نوالہ حضرات بھی ان کی تائید نہیں کریں گے کیونکہ یہ بہتان تراشی اتنی واضح ہے کہ کسی بھی صاحب بصارت وبصیرت کے حلق سے نیچے اترنے والی نہیں ہے۔ چنانچہ اہلحدیثوں کی مرکزی نمائندہ جمعیت اپنی پوری آن بان کے ساتھ دہلی کے مرکزی علاقہ میں ”مرکزی جمعیت اہلحدیث“ کے نام سے موجود ہےا ور ممکنہ حد تک دعوتی تبلیغی ورفاہی خدمات میں نامساعد حالات وناسازگار فضا کے باوجود مصروف عمل ہے۔ صوبائی، ضلعی، ومقامی سطح پر اس کی ہزاروں شاخیں ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہیں اور اپنی سرگرمیوں میں توفیق اور بساط بھر سرگرم عمل ہیں۔ جماعت اہلحدیث کے تمام ادارے اور تنظیمیں اول یوم سے اپنے منتخب ناموں کے ساتھ اپنی اپنی خدمات کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ البتہ مرکزی ادارہ ” خودارالعلوم “ کے نام سے کھلا تھا بعد میں چل کر ”الجامعۃ السلفیۃ “ میں تبدیل ہوگیا۔ اسی ایک ادارے کے نام کی تبدیلی ”سلفی“ میں ہوئی ہے۔ صرف اسی ایک ادارہ کی تبدیلی کو”بڑی حد تک“ قراردینا ”سرعت“ سے تعبیر کرنا فاضل مؤلف جیسے محقق لوگوں کا ہی کام ہے۔ جواپنی محققانہ مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے انہونی کوہونی بنادیتے ہیں اور رائی کے بنا بھہ پہاڑ قائم کردیتے ہیں۔ ”مرکزی دارالعلوم“سے ”جامعہ سلفیہ“ بن کر مذکورہ ادارے نے کتنی مادی منفعت حاصل کی یا کتنا نقصان اٹھایا؟ اس کو ادارے کے ذمہ دار ہی جانتے اور سمجھتے ہوں گے ۔ لیکن اتنا طے ہے کہ تخمینوں یا اٹکل پچو سےا س کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ فاضل محقق نے اپنی مختلف شاہکار تصنیفات میں جابجا اہلحدیثوں کو سعودی عرب سے دولت بٹورنے کا طعنہ دیا ہے اور ا س کی مذمت میں ایسے اسلوب استعمال کیے ہیں جن سے موصوف اور ان کی جماعت کی شان استغنائی کا پتہ چلتاہے اور اندازہ ہوتاہے کہ یہ نہایت ہی گندا اور گھناؤنا عمل ہے جس سے موصوف اور ان کی جماعت کا دامن صاف‘مبرا اور پاک ہے۔ ا ورحقیقت یہ ہے کہ یہ اور ان کی جماعت