کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 128
دیتے کہ اہل حدیثوں نے کب اور کس زمانے میں اپنے لئے ”غیرمقلدین “نام کا انتخاب کیا تھا تو ان کا ہمارے اوپر بڑا احسان ہوتا۔ ویسے ہمارے اوپر ان کے احسانات کی کمی نہیں ہے، ہم نے ان کی فاضلانہ تحقیقات سے اپنے علم میں بڑا اضافہ کیا ہے۔ ایک اضافہ تو یہی ہے کہ فاضل موصوف بغیر کسی بنیاد کے بڑی سے بڑی عمارت قائم کرنے کی مکمل مہارت رکھتے ہیں، اور یہ کوئی عظیم فائدہ نہیں ہے، ضرورتمند لوگوں کو ان کی خدمات حاصل کرنی چاہیے۔
کوئی بعید نہیں کچھ عرصہ بعد یہی فاضل مؤلف یا ان کے ہم مثل کوئی دوسرے مؤرخ آئیں اور اہلحدیثوں کے مختلف اسماءوالقاب اور (بزعم خویش) ان کی پینترے بازی کی وضاحت کرتے ہوئے”لامذہبیت“ کوبھی شمار کرلے، اور کہیں کہ ایک عرصہ تک انہوں ” لامذہب “بھی اپنا نام رکھا تھا کچھ عرصہ بعد معلوم یا نامعلوم اسباب کی بناء پر ا س سے بے زار ہوکر دست بردارہوگئے۔ جیسا کہ انہوں نے” غیر مقلدین “اور ’’وہابی“کے سلسلے میں تحقیق انیق پیش فرمائی ہے۔
واضح ہونا چاہیے کہ کبھی بھی اہل حدیثوں نے اپنا نام” غیرمقلدین“ نہیں اختیار کیا ہےبلکہ ”لامذہب“ اور ”وہابی“ کی طرح یہ بھی فاضل مؤلف، ان کی باوصف جماعت کی ذرہ نوازی اور کرم فرمائی ہے۔ جس کو موصوف نے جماعت اہل حدیث کے ہی کھاتہ میں ڈال دیا ہے۔
جماعت اہلحدیث نے کبھی بھی عدم تقلید پرفخر ومباہات سے کام نہیں لیاہے اور نہ ان کا یہ شیوہ ہے۔ البتہ حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے اور مطلق تقلید کی عدم مشروعیت کوواضح کرتے ہوئے اللہ کی اس نعمت پر اس کا شکر ضرور اداکیاجائے۔
۵۔ ”اہل حدیث “ نام سے بڑی حد تک وسعت برداری ”سلفی “اور ”اثری“ ناموں کا بڑی تیزی کے ساتھ اختیار کرنا، ان کےتعلیمی وتبلیغی اداروں اور مراکزکے ناموں کی ”اہل حدیث“ کے بجائے ”سلفی“ اور ”اثری“ سے تبدیلی“۔
مذکورہ بالا اقتباس میں ذکر کردہ ہر افترا پردازی اپنی سابقہ افتراء پردازیوں سے