کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 125
جبکہ ان کی جانب صحیح نسبت ”محمدی“ ہی ہے جیساکہ نواب صدیق خاں رحمہ اللہ نے اپنی تالیفات میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ لیکن ان کی طرف نسبت کےلیے عوام اور موصوف جیسے باوصف خواص میں لفظ ”وہابی“ مشہور ومعروف ہے جس کو شیخ نے خود پسند نہ فرمایا ہوگا۔ ا ن کے متبعین قطعی طور پر اس نسبت کونہ تواختیار کرتے ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں۔ اور لفظ ”محمدی“کارواج شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ سے بہت پہلے ہوگیاتھا، اور آپ کی معاصر تحریک شہیدین سے وابستہ حضرات اس نسبت کو اختیار کئے ہوئے تھے، اورآج بھی اس کو جامعت اہلحدیث اختیار کیے ہوئے ہے جیساکہ ان کے اداروں اورتنظیموں کے ناموں سے واضح ہے ۔ ا س میں نہ تو کسی قسم کا اسے خوف لاحق ہےا ور نہ تھا۔ ا گر کوئی اس طرح کی بات کہتا ہے توسراسربہتان تراشی سے کام لیتا ہے، ہاں جماعت اہلحدیث ایک زمانے میں لفظ ”وہانی“ کو اپنے لیے ناپسند کرتی تھی، ا ور آج بھی کرتی ہے، ا ور اس کا سبب البتہ واضح ہے۔ ا س لفظ کو انگریز حکومت ”باغی“ کے مترادف تصور کرتی ہے، ا ور اس میں سوداعظم کے افراد کا بڑا دخل تھا، چنانچہ جس کے بارے میں انگریزوں کو معلوم ہوجاتا کہ یہ وہابی ہے بلادریغ اسے تختۂ دار پر کھینچ لاتے، یا اس پر مختلف قسم کے شدید مظالم ڈھاتے۔ اس کی وضاحت پچھلی سطور میں کی جاچکی ہے۔ انہی مظالم سے بچنے کےلیے جماعت نے اس نسبت سے سرکاری طور پر براء ت کا اظہارکرکے ازالہ کیا۔ اس میں نہ تو شرعی طور پر کوئی قباحت ہے اور نہ ا س سے علماء نجد وحجاز کی موافقت پر کوئی آنچ آتی ہے۔ البتہ ایک زمانے میں آپ کے فرشتہ صفت علماء کرام نے وہابیوں اور ان کے امام کی تردید اور دشنام طرازی میں صفحات کے صفحات سیاہ کردیے اور مستقل کتابیں تالیف کرڈالیں، اور نہایت ”سلیس اور شستہ زبان “ میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کوخراج تحسین پیش کیا۔ ا ور آج رجوع کا سہارا لے کر تنہا اپنے آپ کو