کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 124
افراد اورا دارے اس نام سے مشہور ہیں جومحتاج تعارف نہیں ہیں۔ ا گر کوئی اپنی یا دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر حقیقت کوجھٹلانے کی لاک کوشش کرے پھر بھی حقیقت کو ہر گز نہیں جھٹلاسکتا اور نہ ا س پر پردہ ڈال سکتاہے۔ پھر بھی اس کےلیے زندہ وجاوید ثبوت فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور عناد کے پیش نظر ہمیں یقین ہے کہ اس کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا، ا ور اپنی ضدا ور افتراء پردازی کے سامنے کسی کی کوئی بات نہیں سنیں گے۔ کیونکہ ان کے بارے میں ہمارا بلکہ تمام لوگوں کا یہی مشاہدہ ہے کہ دینی امور میں بھی جس بات کوانہوں نے اپنا موقف بنالیا ہے خواہ اس کا تعلق اصول سے ہو یافروع سے، اس سے وہ ہٹنے والے نہیں ہیں، خواہ وہ کتاب وسنت اور ائمہ سلف کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک کہ اپنے امام حضرت ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مسلک کےخلاف کیوں نہ ہو، یہ چیز اتنی واضح ہے کہ اس پردلیل دینے کی ہم ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ پھر بھی ایک دلیل پیش ہی کردیتے ہیں، یہ بات محقق ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مسئلہ ارجاء کےعلاوہ عقائد کے باب میں مکمل طور پر عقیدۂ سلف کےحامل تھے، لیکن آپ کی تقلید کادعوی کرنے والے بیشتر حضرات اشعری یا ماتریدی عقیدہ کےحامل ہیں جوسراسر عقیدہ سلف کےخلاف ہے۔ فاضل مؤلف ”وفقۃ مع اللامذھبیۃ “ کی اس فاضلانہ بکواس اور بہتان تراشی پر بدن میں کپکپی طاری ہوگئی کہ موصوف نے تعصب کی کتنی دبیز چادر اوڑھ رکھی ہے کہ اللہ کی گرفت کا ادنی خوف بھی یہ کہتے ہوئے دامن گیر نہیں ہوا کہ ”محمد بن عبدالوہاب“ کی جانب منسوب کیے جانے کےخوف سے ”محمدی“ نسبت سے دست بردار ہوگئے “۔ کیا وہ یہ بتلا نا پسند فرمائیں گے کہ کب شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی جانب سے لفظ ”محمدی“ کے ذریعہ نسبت کی گئی ؟اور کس نے کی ؟کہ اہلحدیثوں پرا س نسبت سے لرزہ طاری ہوگیا