کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 121
ان سے جماعت اہلحدیث کی عداوت ودشمنی کی دلیل بنایاہے اور ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ ا س کا بھی مفصل جواب دیاجاچکاہے۔ اپنی اس تحقیق فرید کو جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
”اسی طرح غیر مقلدین اسماء والقاب کےا نتخاب واختیار اک شکار رہے، ان کےعلماء سابقین میں کوئی ایساشخص نہیں گزرا ہےجو”سلفی “ نام سے معروف ہو، بلکہ سب اسی آخر ی نام ( اہلحدیث ) پر جمے ہوئے تھے۔
جب ان اسلاف کا دور گزرگیا، نئی نسل نے جنم لیا، بین الاقوامی حالات میں تبدیلی آئی، خلیجی ممالک اورخصوصی طور پر سعودی عرب میں اقتصادی خوشحالی آئی اور وہاں کی اکثریت شیخ ابن تیمیہ، ا بن القیم اور ابن عبدالوہاب رحمہم اللہ سے شغف اور محبت رکھتی ہے، اور وہ لوگ سلفی نسبت کے حامل تھے۔ توغیر مقلدین کی موجودہ جماعت اور نئی نسل نے موقع غنیمت سمجھااور اس نام ( سلفیت) کواختیار کرکے ان کی ہم نوائی میں لگ گئے، اورغیر مقلدوں نے بڑی حدتک ”ا ہل حدیث “ نام، سے دست برداری اختیار کرکے بڑی تیزی کے ساتھ ”سلفی“اور ”اثری“ بننا شروع کردیا، ان کے مدارس، تعلیمی اداروں اور تبلیغی مراکز کے نام ”اہلحدیث “ کےبجائے ”سلفی“ اور ”اثری“ میں تبدیل ہونے لگے، لیکن ابھی ان دونوں ناموں میں سے کسی ایک کے ختیار میں ان کواستقلال نہیں حاصل ہوسکا ہے۔ ۔ “ [1]
اس محققانہ بکواس میں ایک ساتھ کئی طرح کی الزام تراشیوں اور تہمت بازیوں سے کام لیاگیاہے، جن کے چند نمونے قارئین کی نذرہیں :
۱۔ ہندوستان میں جماعت اہلحدیث کےظہور کوعلامہ شوکانی رحمہ اللہ سے مربوط کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، اس سلسلے میں پچھلے صفحات میں بحث کی جاچکی ہے، اور اس کا
[1] وقفۃ مع اللامذھبیۃ (ص۲۸۔ ۳۰)