کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 119
فاضل مؤلف ”وقفۃ مع اللامذھبیۃ “حد درجہ جرأت وبے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتاب کے مقدمہ طراز ہیں : ”اس جماعت (یعنی اہلحدیث) کا ظہور اس وقت ہواجب سے بعض علماء ہند شوکانی رحمہ اللہ کےحلقہ تلمذ میں داخل ہوئے اس وقت یہ لوگ ”موحدین“کے نام سے موسوم تھے، ا ور یہ نام ایک مدت تک ان کے یہاں معروف تھا، پھر اس نام کو نامعلوم اسباب(؟) کی بناء پرختم کرکے ”محمدی“ نام اختیار کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نام سے بھی بیزار ہوگئے۔ ا ور اس بیزاری کی ایک معروف وجہ تھی اور وہ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ کی جانب انتساب کا خوف تھا، جس کو وہ سخت ناپسندکرتےتھے۔ ا س کے بعد ”غیر مقلدین“ کا لقب اختیار کیا۔ اور ایک عرصہ تک اسی لقب پر باقی رہےا ور ائمہ دین میں کسی کی بھی عدم تقلید پر فخر ومباہات کرتے رہے [1] لیکن نامعلوم اسباب [2] کی بناء پر کچھ ہی عرصہ بعد اس نام سے بھی اکتاگئے، اور اپنے لیے ایک نیا لقب اپنے
[1] شاید آپ نے اس نام سے ان کی مساجد ومدارس کا اپنی دیدہ ورآنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا ہوگا، ان کی نشاندہی فرمادیتے توآپ کے جدید انکشافات میں قابل قدر اضافہ ہوجاتا، و یسے آپ کے یہاں نئےوغیر معمولی انکشافات کی کمی نہیں ہے، جنہوں نے آپ کے ہم نواؤں کے قلب وجگر کوکافی سکون پہنچایا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحقیقات پر مبنی تالیفات کے منظر عام پر آتے ہی آپ کے مؤیدین ومتوسلین خوب تالیاں بجاتے اور داددیتے نظرآتے ہیں اور پرچوں میں تبصرہ کے نام پر تعریف وثناخوانی میں آسمان سے قلابہ ملائے جاتے ہیں، ا کابرین ہر گھر اور ہرفرد کے ہاتھوں میں اس خیانت نما تحقیقات پر مبنی کتابوں کو پہنچا نے کی تلقین کرتے ہیں ۔ [2] معلوم نا معلوم اسباب کی تفریق سے اپنے کلام کو باوزن بنانے نیزاپنی مصنوعی دیانتداری کا ثبوت فراہم کرنے کی سعی نامسعود ہے، جس طرح جماعت اہل حدیث کے دلوں میں جھانک کر بعض ناموں کے انتخاب اور ان کی تبدیلی کے اسباب معلوم کرلئے گئے، بقیہ ناموں کے انتخاب اور ان کی تبدیلی کے اسباب بھی معلوم کیے جاسکتےتھے، بظاہر ان حضرات کے لیے یہ چیز ایک معمولی بات ہے، ا ور ان کے یہاں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے غیبی تصرفات کے ذریعہ دوررہ کر بھی حقائق بلکہ دلوں کےحالات کومعلوم کرلیتےتھے ملاحظہ ہو: (دیوان جی ) مولانا قاسم نانوتوی صاحب کے قریب ترین خادم کا قصہ، جن کےلیے دوردیوار رؤیت سے مانع نہیں ہوتےتھے، سوانح قاسمی ( ۲/۷۳)، مولوی نظر محمد خان کا قصہ مولاناگنگوہی کے ساتھ بیوی سے بیعت کے سلسلےمیں : تذکرۃ الرشید (۲/۹۵(، ولی محمد کا قصہ مولانا گنگوہی کے ساتھ : تذکرۃ الرشید(۲/۲۲۷) لہذا ان لوگوں سے بھی تعاون لے سکتے ہیں اگر تعاون کے حصول کی صورت سمجھ میں نہ آئے تو قنش حیات (۲/۶۳) میں نقشبندی بزرگ کا واقعہ پڑھ لیں جن کومولانانانوتوی صاحب مرحوم نے اپنی قبر سےمولانا محمود الحسن صاحب کے بارے میں یہ بتلادیاتھا کہ عرش خداوندی کوپکڑے ہوئے اصرارکررہے ہیں کہ انگریزوں کوجلد ہندوستان سے نکال دیاجائے “پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ سابقہ سطور میں نقل کیاجاچکاہے، لہذا ان بزرگوں سے تعاون حاصل کرکے نامعلوم ا سباب کی بھی تعین کردیجیے اور اپنےحواریوں سے مزید دادتحسین کے مستحق بن جائے۔