کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 117
تفصیل میں نہ جاتےہوئے اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ کو کسی پریشانی یا خلجان کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔ اہلحدیث اور سلفی جماعت کےتمام افراد صحابہ کرام کوسلف کی صف اول میں شمار کرتے ہیں جیساکہ واضح کیاجاچکاہے، رہا ان کے اقوال وافعال کوسلف کی صف اول میں شمار کرتے ہیں جیساکہ واضح کیاجاچکاہے، رہا ان کےا قوال وافعال کی حجیت کا مسئلہ توحنفی اصول فقہ کی کتابوں میں بھی صحابی کے قول وفعل کو حجت نہیں ماناگیاہے [1] بلکہ ا س سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر فقیہ وغیر فقیہ کی نارواتقسیم بھی کی گئی ہے، چونکہ یہ
[1] قبل ازیں ”ضمیر کا بحران“ (ص۳۵۸) پر اعتماد کرتے ہوئے تلویح (۱/۶۵ مطبوع مصر) کا حوالہ دیاگیا تھا اورایک اقتباس بھی نقل کیاگیا تھا، بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ مؤلف ”ضمیر کا بحران “ سے حوالہ میں چوک ہوگئی یااللہ تعالیٰ زیادہ بہترجانتا ہے کیاہوا؟ وہ از خود اس کا جواب دیں گے ان شاء اللہ۔ ا س پر طہ ہذیانی صاحب کو ڈرامہ بازی کا بہترین موقع ہاتھ آگیا چنانچہ انہوں نے ج ا ش ۶ کےزمزم میں دل کھول کر ہذیان وبکواس سے کام لیا ہے، اگر حوالہ غلط بھی ہوتو اس میں ہماری کیارہ جائے گی کیانہیں رہ جائے گی اس کےلیے ہذیانی صاحب اور ان کے باپ بیٹوں کوپریشان ہونے کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ خود ہذیانی صاحب ا ور ان کی پوری جماعت قدسیہ کا ساراکچھ باقی رہ گیا، کچھ بھی نہیں بگڑا، ماتھے پر شکن بھی نہیں آئی جس وقت ان کے ایک بہت بڑے بزرگ جوخیر سے مترجم قرآن بھی ہیں قرآن کریم کی ایک آیت میں اپنی جانب سے مبینہ طور پر ایک اضافہ کر بیٹھے، ان کی بزرگی اور ان کے تقدس کو مدنظر رکھتےہوئے کتاب کےدسیوں ایڈیشن منظرعام پرآچکےہیں پھربھی کسی کو ہمت نہیں ہوسکی کہ ا س مبینہ اضافہ کوحذف کردے۔ اگر اس جرأت وبے باکی پرکسی کوشرم وحیا وامنگیر نہیں ہوسکتی توایک حوالہ کی سہواً غلطی پر پی، ایچ، ڈی یاغیرپی ایچ، ڈی کی رہ جانے یا نہ رہ جانے کاکیاسوال؟ او را س سے نفس مسئلہ پر کوئی آنچ نہیں آسکتی، جوکچھ عرض کیاگیا وہ اپنی جگہ پر بالکل حقیقت ہے خود توضیح وتلویح (ص۴۸۷مطبوعہ ہند) میں تقلیدصحابی کو صرف ایک حالت میں اجماعاً واجب قرار دیاگیا ہےا ور وہ اجماع سکوتی کی حالت ہے اور اگر صحابہ کے مابین اختلاف ہے تواس حالت میں اجماعاً ان کی تقلیدواجب نہیں ہے، جبکہ تیسری حالت ( یعنی اختلاف یا اتفاق کا علم نہ ہو) میں ان کے یہاں اختلاف پایاجاتاہے، ق ول صحابی کوحجت ماننے والےا ور اس کا پرچار کرنے والے بتلائیں کہ کیااسی کو حجت ماننا کہتے ہیں کہ تین حالتوں میں سے صرف ایک حالت میں صحابی کی تقلید واجب ہے، ا ور ا سمیں تو کسی کا اختلاف ہی نہیں ہے۔ اہلحدیثوں کا بھی یہی مسلک ہے، آئیے حنفی ا صول فقہ کی ایک کتاب ”نورالأنوار“ (ص ۲۱۶۔ ۲۱۷) پر ایک نظر ڈالتے چلیں، کتاب میں ایک بڑے حنفی عالم علامہ کرخی کاقول نقل کیاگیاہے جس میں علامہ موصوف نےانہی امور میں صحابی کی تقلید کو واجب قرار دیا ہے جن کوبذریعہ اجتہاد وقیاس نہیں معلوم کیاجاسکتا ہے، کیونکہ اس صورت میں یہ متعین ہوجاتا ہے کہ صحابی نے شارع علیہ السلام سے سن کر ہی یہ بات کہی ہے، برخلاف ان امور کے جن کو اجتہاد اور قیاس سے معلوم کیاجاسکتاہے ان میں صحابی کی تقلید نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ یہ ان کی اپنی رائے ہو اور اس میں خطا کا بھی احتمال ہوتاہے لہذا وہ دوسرے پر حجت نہیں بن سکتے یہ بات واضح ہوگئی کہ صحابی کے قول کا قول ہونے کی وجہ سے نہیں =