کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 106
طریقوں سے منقسم ہوگیا تھا۔ ایک اہل الرای والقیاس کا طریقہ تھا جس کا مرکز عراق تھا۔ دوسرا اہل الحدیث کا طریقہ تھاجس کامرکز حجاز تھا۔ ا س کے بعد دونوں طریقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ [1] اس تقسیم کےبعد اہل الراوی واہل الحدیث خودوممتاز ومستقل بالذات جماعت کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، مختلف ابواب میں الگ الگ ان کی آراء اور ان کے مذاہب کا تذکرہ کیاجانے لگا۔ چنانچہ علامہ ابن الصلاح مصطلح الحدیث کے ایک اہم مسئلے ”اجازہ “ کے ذریعے روایت حدیث کے جواز وعدم جواز پرکلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”اہل الحدیث، فقہاء اور اصولیوں کی ایک جماعت اجازۃ ً روایت حدیث کے جواز کی مخالف ہے۔ “ بعض شافعی فقہاء کے اقوال کاتذکرہ کرنےکےبعد رقم طرازہیں : وممن أبطلھا من أھل الحدیث الامام إبراھیم بن إسحاق الحربی وأبومحمدعبداللہ بن محمد الأصبھانی الملقب بأبی الشیخ[2] اہل حدیثوں میں سے جن لوگوں نے اجازۃ ً روایت حدیث کو باطل قراردیاہے، امام ابراہیم بن اسحاق حربی اورا بومحمد عبداللہ بن محمد اصبہانی المقلب ”ابو الشیخ“ ہیں۔ اس طرح اہل الحدیث سے مراد صرف وہی جماعت نہیں جس کا مشغلہ محض حفظ حدیث اور روایت حدیث ہے، بلکہ اہل قیاس ورائے کے بالمقابل کتاب وسنت پر مبنی ایک مخصوص منہج فکر کی حامل جماعت بھی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”اہل الحدیث “ کا مفہوم متعین کرتے ہوئے لکھا ہے : ”اہل الحدیث سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں ہیں جومحض حدیث سننے سنانے، اس
[1] مقدمہ ابن خلدون (ص ۴۴۶ط۴ بیروت ) الدرالمصون، تہذیب مقدمۃ ابن خلدون (۶۶۲) [2] مقدمہ ابن الصلاح (ص۱۳۵)