کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 105
بیٹھے ہوئے ہیں [1]دیگر بزرگوں کے بارے میں قارئین نے پڑھ ہی لیا ہوگا کہ کسی کا قلم عرش الٰہی کے ورے چلتا ہے۔ ا ور کوئی عرش الٰہی کا پایہ پکڑ کر مچل رہاہے۔ لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ ان حضرات نے وہاں سے کوئی پیغام اس طرح کا ارسال کیاہو۔ لیکن ایک سوال کرنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ اگر انہیں کے کسی بزرگ صاحب نے لفظ ”محمدی“ کی نسبت استعمال کی ہوتواس کا کیا نام دیں گے، کیا یہ نسبت جبریل امین اور دیگر ملائکہ مقربین کی موافقت وہم نوائی کہی جائے گی یاوہ بھی دشمنان اسلام کی تائید اوہم نوائی ہوگی ؟
اب آپ کا حسن کرشمہ سازکیاکہتا ہےا سے دیکھاچاہے۔ ا ور آپ کے علم کےلیےعرض کردیں۔ ۔ ۔ ۔ ویسے آپ ا س سے غافل نہیں ہیں کیونکہ آپ ہی لوگوں کی لکھی ہوئی تحریروں سے ہم نقل کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ آپ کے ایک بہت بڑے بزرگ نے بھی ”محمدی“ نسبت استعمال کی ہے۔ چنانچہ آپ اپنا زمزم( مکہ والا نہیں سید واڑہ والا) شمارہ بابت ربیع الاول وربیع الثانی ۱۴۱۹ھ اٹھائیے، ”معارف مدنیہ“ کے عنوان سے آپ نے اپنے بزرگ بلکہ عظیم ترین بزرگ مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے مکتوبات سے منتخب کرکے جن موتیوں سے اپنے قارئین کے دامن کوبھرنے کی زحمت کی ہے ان میں نمبر ۱۸ پرپر جس موتی کاتذکرہ آپ نے کیاہے اس کو پڑھ لیں۔ اگر موقع نہیں ہے توہم آپ کوسنائے دیتے ہیں :”فرمایا:ایک ”محمدی“ کوحسب اقتضائے فطرت اور عقل لازم ہوناچاہیے کہ وہ اپنے آقا کا سارنگ ڈھنگ، چال چلن، صورت وسیرت، فیشن وکلچر وغیرہ بنائے “ [2]
نہایت باادب طریقے سے ہم پوچھانچاہیں گے کہ آپ اس کو کیا کہیں گے ؟
اہل الحدیث
علامہ ابن خلدون نے فقہ اور اس کے تدریجی ارتقاء وتاریخی مراحل پر بحث کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اس بات کا اعتراف کیاہے کہ فقہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہی دو
[1] ملاحظہ ہو:سوانح قاسمی (۱/۱۳۱۔ ۱۳۲)ومبشرات دارالعلوم دیوبند (ص۶۳)
[2] زمزم(ص۱۰)