کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 102
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے لیے(۹۹) ایک کم سونام ہیں جس شخص نے انہیں شمار کرلیاجنت میں داخل ہوگیا۔ اورخود قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے : ” وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا۔ [1] ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ہیں اسے انہی ناموں سے پکارو۔ گویا تعداد اسماء یا تعددالقاب کوئی معیوب شئ نہیں ہے، ورنہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے نام متعدد نہیں ہوتے بلکہ اس کے برخلاف عربوں کے یہاں جو چیز جتنی زیادہ عظیم اور مہتمم بالشان ہوتی تھی اتنے ہی زیادہ اس کے نام وصفات ہواکرتےتھے۔ ۲۔ محسن انسانیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےا یک سے زائد نام تھے۔ آپ کا نام دادانےمحمداورو الدہ نےا حمد رکھا۔ اس کے علاوہ آپ کے متعدد صفنی نام تھے۔ قرآن کریم میں آپ کو مختلف ناموں سے مخاطب کیا گیاہے جیسے سرج منیر، بشیر ونذیر وغیرہ ۔ اگریہ چیز معیوب ہوتی توکبھی بھی آپ کو گوار انہیں ہوتی اور نہ اللہ تعالیٰ آپ کو مختلف القاب سے نوازتا۔ ۳۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ”امت محمدیہ “ کا نام ”مسلمین “رکھا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نام سے آپس میں ایک دوسرے کوپکارنے کی تلقین فرمائی ہے جیساکہ سابقہ سطور میں عرض کیا جاچکاہے۔ اس کے باوجود خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر اپنے برگزیدہ بندوں کو مؤمنین، مخلصین، صالحین، قانتین، عابدین، ساجدین، اورا سی طرح کے بے شمار صفتی ناموں سے یاد فرمایاہے جن سے ایک ہی جماعت مراد ومقصود ہےا ور وہ مسلمانوں کی جماعت ہے۔ ا سے نہ تو اضطراب محمول کیاجائے گا، ا ور نہ ا س سے کسی قسم کی قباحت ہی لازم آتی ہے۔ اب اگر اہلحدیثوں نے مختلف اوقات میں یا ایک ہی وقت میں مختلف نام والقاب
[1] سورۃ الاعراف (الآیۃ :۱۸۰)