کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 101
اہلحدیثوں کے یہ بھلے نام جو نہ توکسی عربی یا عجمی شخصیت سے مربوط ہیں اور نہ ہی کسی عربی یا عجمی گاؤں یا دیش کی طرف منسوب ۔ اگر کوئی نسبت کہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، یا آپ کے اقوال، یا آپ کی جماعت کی جانب ہے۔ لیکن ہمارے کرم فرما حضرات کویہ سارے نام نہیں بھائے، بہت زیادہ کھلے۔ بلکہ نیش زنی اور غلط الزامات کاسہارا لیتے ہوئے دلوں میں جھانکنے اور نیتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے۔ انہیں اضطراب ومصلحت کیشی پر محمول کیاگیا، نیک مشورے (؟) دیے گئے، مثلاً کہاگیا: آپ اپنا نام اہل الکتاب رکھ لیجیے، ا ہل القرآن والحدیث والرسول رکھ لیجیے، اہل الآیات المتشابہات اور اہل السبع المثانی رکھ لیجیے۔ کیونکہ یہ تمام الفاظ قرآن کے اندروارد ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے نہ جانے کیاکیا مغلظات بکے گئے اورصفحات کے صفحات سیاہ کیے گئے۔ [1]
نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس کا فیصلہ بروزقیامت ہوگا۔ مغلظات کے سلسلے میں اپنےاور اپنے کرم فرماؤں کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعاکرتے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے مختلف ناموں اور القاب کے انتخاب واختیار کا توبظاہر ہمیں شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں نظر آئی، نہ ہی ہمارے کرم فرما حضرات نے اس کی جانب کوئی اشارہ کیا اور نہ کتاب وسنت، قیاس واجماع اور استحسان پر مبنی ایسے دلائل پیش فرمائے جن سے مختلف ناموں کے انتخاب واختیار کی عدم مشروعیت کا پتہ چلتا ہے۔ بعض وجوہ پیش خدمت ہیں :
۱۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
” إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ “[2]
[1] اطمینان کے لیے ملاحظہ فرمائیں ”وقفہ مع اللامذھبیۃ (ص ۲۸۔ ۳۰) غیر مقلدین کی ڈائری (ص۲۰۸، ۲۰۹)ابوبکر غازی پوری کی دیگر مؤلفات
[2] صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء باب فی اسماء اللہ تعالی وفصل من أحصاھا ( ۴/۲۰۶۳ نمبر۲۶۷۷)