کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 99
عقیدہ کے باب میں حدیث آحاد حجت نہیں ہے۔[1]
یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ سے انحراف کس قدر گمراہی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پوری زمین میں پھیلے ہوئے تھے جو جہاں تھا وہ وہاں لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہا تھا۔ ان کے درمیان حدیث آحاد و حدیث متواتر کے درمیان تفریق نہیں تھا۔ وہ صرف اتنا جانتے تھے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے اس پر خود بھی عمل کرنا چاہیے اور اس کو دوسروں تک پہنچانا بھی چاہیے اتنا جان لینے کے بعد اب جو شخص بھی حدیث میں تفریق کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ حدیث آحاد ہے اور یہ حدیث متواتر ہے وہ سلف صالحین کی منہج اور کتاب و سنت کی پیروی سے انحراف کئے ہوئے ہے۔
کتاب و سنت کے علم کے ساتھ ساتھ
سلف صالحین کے عمل کی معرفت بھی ضروری ہے
اب جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ بھی سلفی منہج کو اختیار کرے اور اسی پر قائم بھی رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس طرح کتاب و سنت کا علم حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ اس بات کو بھی جاننے کی کوشش کرے کہ صحابہ کرام کس راہ پر گامزن تھے، تابعین اور تبع تابعین کس راستے کو اختیار کئے ہوئے تھے۔ سلف صالحین کا طریقہ عمل کیا تھا۔ اس لیے کہ یہی وہ نفوس قدسیہ تھیں جنہوں نے بالکل صحیح انداز میں اس دعوت کو ہم تک پہنچایا۔ اس دعوت پر عمل کرنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں ان کے ہویٰ و نفس کا ذرا بھی دخل نہیں تھا۔[2]
[1] ۔ یہ حدیث بہت قوی ہے۔ اس کے باوجود بدعتی لوگ اس حدیث سے استدلال کی تردید کرتے ہیں کیونکہ یہ خبر واحد ہے جبکہ اس کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صرف صحیحین ہی کا اس کی صحت پر اتفاق نہیں ہے بلکہ کتب ستہ نے اپنی اپنی سنن میں اس کی تخریج بھی کی ہے اور تمام اہل علم نے اس کی تصحیح کی ہے اور اس کو قبول بھی کیا ہے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طریق سے مروی ہے اور ابن عباس سے صرف ابومعبد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے باب میں حدیث صنابحی کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن یہ حدیث متواتر ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔
[2] ۔ سلفی منہج کو سمجھنے کے لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے یہاں جس شرط کو ذکر کیا ہے وہ یقینا ان کی قوت بصیرت اور /