کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 97
وہ متواتر کے درجے میں نہیں ہے۔ اب اس نظریہ کے بعد جس نے صحابہ کرام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا ہے اور تابعین کی زندگی پر بھی اس کو درک حاصل ہے وہ شخص یقینی طور پر یہی کہے گا کہ یہ نظریہ اسلام میں بہت بڑا دخیل ہے۔ یہ ایسا فلسفہ ہے جس سے یقینا اسلام بری ہے[1] اس بات کو ہمارا ہر فرد جانتا ہے اور یہ لوگ بھی جانتے ہیں لیکن یہ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، جیسا کہ ان کے غیر کے بارے میں ارشاد باری ہے: {وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ} (النمل:14) ’’اور ان لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے لیکن ان کے نفس نے اس پر یقین کرلیا ہے۔‘‘
حدیث واحد کے حجت ہونے پر دلائل:
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے کہ جو لوگ مدینہ منورہ سے اور دوسرے مقامات پر سکونت اختیار کئے ہوئے تھے، ان کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو ان کے پاس بھیجتے تھے۔ یہ لوگ جماعت کی شکل میں نہیں جاتے تھے بلکہ ایک فرد جاتا تھا اور انھیں اسلام کی دعوت دیتا تھا۔ وہ اسلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے جو عقیدہ و احکام سب کو شامل تھا۔ صحیح حدیث میں اس کی واضح مثال موجود ہے اس حدیث کو یہ لوگ بھی جانتے ہیں لیکن افسوس کہ اس سے انحراف کئے ہوئے ہیں وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت اسلام کے لیے یمن کی طرف بھیجتے تھے کبھی معاذ رضی اللہ عنہ کو بھیجتے تھے، کبھی [2]
[1] اور باطل نظریات کی دلائل کی روشنی میں تردید کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حدیث آحاد و حدیث متواتر میں فرق ہے اور خود شیخ البانی رحمہ اللہ کی اس مسئلہ میں نفع بخش اور علمی تصنیف ’’الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والأحکام‘‘ موجود ہے۔ (اس کتاب کابھی اردو ترجمہ قبول عام حاصل کرچکا ہے۔)
[2] ۔شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول ’’وہی فلسفۃ یتبرأ منہا الإسلام‘‘ ایک بہت دقیق اور باریک وصف ہے اور ایک شامل تعبیر ہے۔ اس لیے کہ یہ قاعدہ کہ حدیث آحاد اور حدیث متواتر میں فرق ہے نیز احکام میں حدیث آحاد سے دلیل جائز ہے لیکن عقائد کے مسائل میں نہیں۔ یہ ان قواعد میں سے ہے جن کو اہل کلام اور اہل فلسفہ نے وضع کیا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کلام اور فلسفہ کا شمار علوم اسلامیہ میں نہیں ہوتا ہے یہ بات اہل سنت وجماعت ائمہ اربعہ اور دیگر محققین سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔