کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 96
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے اس پر عمل کرنا چاہیے، پھر ان لوگوں نے احادیث آحاد اور احادیث متواتر کے درمیان تفریق کرکے اس پر شرعی حکم کی بنا ڈالی ہے اور یہ کہا ہے کہ حدیث آحاد کا مضمون اگر عقیدہ پر دلالت کرتا ہے تو وہ صحیح بھی ہو مگر اس کو نہیں قبول کیا جائے گا کیونکہ[1]
[1] /بیان المحجۃ‘‘ 2/212 میں ابومظفر سمعانی کا قول نقل کیا ہے اگر حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کو ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے اور بعد والوں نے بھی سلف سے نقل کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی سند کو ثابت کردیا ہے اور امت نے اس کو قبول بھی کرلیا ہے تو ایسی صورت میں وہ علم کا فائدہ دیتی ہے اور علم کو واجب کردیتی ہے۔ محققین اور عام اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ اب رہا یہ قول کہ خبر واحد علم کا فائدہ نہیں دیتی ہے بلکہ علم و یقین حاصل کرنے کے لیے اس حدیث کا متواتر طریقے سے نقل ہونا ضروری ہے۔ یہ ایسا قول ہے جس کو قدریہ اور معتزلہ نے ایجاد کیا ہے۔ اس سے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ احادیث کو مکمل کردیا جائے۔ انہی لوگوں سے ان کے اس قول کو بعض ایسے فقہاء نے لے لیا ہے جن کو حدیث کے بارے میں نہ تو زیادہ معلومات تھیں اور نہ ہی وہ ان کے غلط مقصد اور باطل نظریہ کو سمجھ سکے۔ یقینا اگر امت کے یہ فرقے انصاف سے کام لیتے تو انہیں اس بات کا اقرار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ خبر واحد علم و یقین کا فائدہ دیتی ہے آپ ان کو دیکھیں گے کہ یہ لوگ عقائد و طریقے میں باہمی اختلاف کے باوجود اپنے اپنے نظریہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے خبر واحد سے استدلال کرتے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے واضح انداز میں کہا ہے کہ احادیث کی یہ تقسیم نئی ایجاد ہے سلف صالحین میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس کے برعکس اگر حدیث صحیح سند سے ثابت ہے اگرچہ وہ حدیث خبر واحدہی کیوں نہ ہو تو وہ حجت ہے خواہ عقیدہ کے مسائل میں ہو یا احکام کے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ حدیث سند و متن کے اعتبار سے صحیح ہو۔ اس میں کسی قسم کی کوئی علت نہ پائی جاتی ہو جو اس کی صحت کو قادح ہو۔ محدثین، اہل سنت و جماعت اور محققین متاخرین کا یہی مذہب ہے۔ ابن عبد البر نے ’’التمہید‘‘ 1/8 میں اہل اثر کی ایک بڑی جماعت اور بعض اہل نظر جیسے حسین کرابیسی وغیرہ سے اس قول کو نقل کیا ہے اور خؤ از بنداز نے کہا ہے کہ یہ قول امام مالک کے طریقہ پر ہے۔ یہی ابن حزم کا مذہب ہے اور انہوں نے داؤد ظاہری اور حارث بن اسد محاسبی سے اس قول کو اپنی کتاب ’’الإحکام فی أصول الأحکام‘‘ 1/110 میں نقل کیا ہے اور یہی امام بخاری و امام شافعی کا مذہب ہے بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح 2/222 میں اس پر ایک مستقل باب باندھا ہے اور کہا: ’’باب ما جاء فی إجازۃ خبر الواحد الصدوق فی الأذان والصلاۃ والصوم والفرائض والأحکام‘‘ اس کے بعد باب کی مناسبت سے احادیث کا ذکر کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’الرسالۃ‘‘ (ص201) میں کہا ہے: ’’خبر واحد حجت ہے پھر اس کے دلائل کا ذکر کیا ہے۔ (امام شافعی کے اس قول کے بعد ابن عبد البر کے نقل کردہ قول کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ خبر واحد کا فائدہ تو دیتی ہے لیکن اس پر عمل صحیح نہیں ہے) ہم نے اپنی کتاب ’’دفاعًا عن السلفیۃ‘‘ (ص163) میں ان لوگوں کے شکوک و شبہات /