کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 94
اعلان کرتے ہیں کہ ((مذہب السلف أسلم ومذہب الخلف أعلم وأحکم))[1] ’’یعنی سلف کا مذہب زیادہ سلیم ہے اور خلف کا مذہب محکم اور پائیدار ہے اور
[1] ۔مذہب سلف اور مذہب خلف کے درمیان اس قسم کا موازنہ اور مقابلہ بہت بڑی جسارت ہے اور حدیث نبوی کے صریح خلاف ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’خیر الناس قرنی…‘‘ سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں۔ یہ حدیث صحیح اس بات میں واضح اور صریح ہے کہ ہر قسم کی بھلائی اور علم و اتباع میں قرون ثلاثہ کو بعد کے تمام لوگوں میں اوّلیت اور افضلیت حاصل ہے۔ اس حدیث کے عموم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ان کا اعتقاد بھی سب سے محکم تھا اور فہم نصوص نیز نصوص سے استدلال کرنے میں ان کا مذہب سب سے اعلیٰ و ارفع تھا۔ رہے خلف یعنی بعد کے لوگ تو کسی بھی چیز میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی خلف کا سلف سے موازنہ کرنا صحیح بھی ہے۔ بلکہ خلف میں جس قدر سوء فہم اور اتباع نفس کا مادہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس کی طرف بھی حدیث میں اشارہ موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آخر میں فرمایا: ’’ثم یتخلف من بعدہم خلف تسب شہادۃ احدہم یمینہ، ویمینہ شہادتہ‘‘ یعنی بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ ان کی گواہی ان کی قسم سے سبقت کرجائے گی اور کبھی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔ بلکہ قرون ثلاثہ جن کو سب سے افضل زمانہ کہا جاتا ہے۔ ان کے زمانہ میں علم اوج ثریا پر تھا انتہائی واضح اور روشن تھا اور بعد کے لوگوں میں جہالت عام ہونی شروع ہوگئی علم بھی ختم ہونا شروع ہوگیا۔ برائیاں بڑھنے لگیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’إن من أشراط الساعۃ أن یرفع العلم، وثیبت الجہل، ویشرب الخمر، ویظہر الزنا۔‘‘ (صحیح بخاری: (مع الفتح:1/145)، صحیح مسلم:4/2056، ابوالتیاح عن انس بن مالک کی سند سے) ’’یعنی علاماتِ قیامت میں سے بھی ہے کہ علم اٹھالیا جائے گا، جہالت عام ہوجائے گی، شراب نوشی خوب ہوگی اور زنا عام ہوجائے گا۔‘‘ دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’لا یأتی علیکم زمان إلا والذی بعدہ أشر منہ حتی تلقوا ربکم۔‘‘ (صحیح بخاری:4/315، ترمذی:2206۔ زبیر بن عدی عن انس بن مالک کی سند سے) ’’نہیں آئے گا تمہارے اوپر کوئی زمانہ مگراس کے بعد کا زمانہ اس سے برا ہوگا یہاں تک تم اپنے رب سے ملاقات کرو۔‘‘ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس قول کے متعلق کہا ہے کہ ’’اس قول میں رفض کا ایک شبہ ہے کیونکہ اگرچہ قول سلف کے حق میں تکفیر نہیں ہے جیسا کہ رافضہ اور خوارج کہتے ہیں اور نہ ہی اس قول میں ان کو فاسق بنانا ہے جیسا کہ معتزلہ اور زیدیہ وغیرہم کہتے ہیں لیکن اس قول سے ان کو جاہل بنانا، خطاکار اور گمراہ بنانا لازم آتا ہے اور معاصی اور ذنوب کی نسبت ان کی طرف لازم آتی ہے اور اگرچہ وہ فسق نہیں ہے پھر بھی ان کے گمان میں بعد والے شریعت میں قرون اولیٰ سے افضل اور اعلم ہیں۔ لیکن جس کو کتاب و سنت میں ذرا بھی درک حاصل ہے یا کتاب و سنت کا ذرا بھی اس کو علم ہے اس کو یقینا اس بات کا علم ہوگا اور اس پر تمام اہل سنت کا اتفاق بھی ہے کہ اعمال و اقوال اور اعتقاد وغیرہ میں اس امت میں سب سے اعلیٰ و افضل قرن اوّل یعنی صحابہ کرام ہیں۔ پھر وہ لوگ ہیں جو /