کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 92
ایک غلط فہمی کا ازالہ: کچھ ایسے ہیں لوگ جو اپنے آپ کو اہل علم میں شمار کرتے ہیں، اکثر موقعوں پر ان کی زبان سے بہت کچھ باتیں سنتے ہوں گے لیکن یہ وہ علم نہیں ہے جس کو میں نے ابھی اوپر ذکر کیا ہے، کتاب وسنت اور وہ فہم جس پر صحابہ کرام تھے بلکہ یہ لوگ علم سے وہ چیز مراد لیتے ہیں جس کو انہوں نے کتاب وسنت سے سمجھا ہے۔ وہ صحابہ کرام کے فہم کو نہیں لیتے ہیں جو فہم انہیں گمراہ فرقوں سے محفوظ رکھے، بلکہ اس سے ہٹ کر یہ لوگ اپنا ذاتی فہم مراد لیتے ہیں۔[1][2]
[1] ۔ /کا کوئی امام نہ ہو یہاں پر کوئی شخص یہ نہ خیال کرے کہ یہ قول کوئی مذہب اختیار کرنے کی طرف دعوت ہے کیونکہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ خود موصوف کو سختی کے ساتھ اس بات سے منع کرتے تھے کہ وہ کسی کی رائے کو لیں یا کوئی مذہب اختیار کریں بلکہ ہمیشہ سختی کے ساتھ لوگوں کو اتباع سنت کی طرف دعوت دیتے تھے وہ تو ایجاد شدہ نئے نئے اقوال سے روکتے تھے، جس کو سلف صالحین میں سے کسی نے نہ کہا ہو اور یہ بات بھی صحیح سند سے ثابت ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ لوگوں کو تقلید سے سخت منع کرتے تھے بلکہ وہ کہتے تھے کہ لوگوں کے اقوال کو کتاب وسنت پر پیش کرو۔ ’’مسائل ابی داود، ص: 367،369‘‘ میں امام ابوداؤد فرماتے ہیں: ’’یقول: لا یعجبنی رای مالک ولا رای احد‘‘ میں نہ تو امام مالک کی رائے کو پسند کرتا ہوں اور نہ کسی اور کی‘‘ نیز امام ابوداود کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے کہتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا: کہ ہم جامع سفیان کے مطابق عمل کریں؟ تو اس پر امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: علیک بالآثار۔ ’’تم آثار کو لازم پکڑو‘‘ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہتے ہوئے سنا کہ ’’میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی شخص مجھے کسی کی رائے لکھے، نیز آپ یہ بھی کہتے تھے کہ کسی شخص کی رائے کو لیا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو لینا ہی لینا ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا کہ: کیا امام اوزاعی کے پیروکار امام مالک سے زیادہ تھے؟ تو امام صاحب نے جواب دیا: تم اپنے دین کے معاملے میں ان میں سے کسی کی تقلید نہ کرو البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو کچھ ثابت ہو اس کو لے لو پھر تابعین کے قول بھی لے لو اس کے بعد آدمی کو اختیار حاصل ہے۔ [2] ۔ شیخ رحمہ اللہ کا قول ’’انما یعنون بالعلم… یہ لوگ علم سے وہ چیز مراد لیتے ہیں…‘‘نصوص شرعیہ کے فہم میں اہل رائے اور بدعتیوں کا وصف بیان کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ نصوص بالخصوص متشابہ نصوص کا وہ معنی بیان کرتے ہیں جو فہم صحابہ اور سلف صالحین کے عمل سے بعید تر ہوتا ہے ان کے اس فہم میں ان کے نفس وہویٰ کا دخل زیادہ ہوتا ہے ان کا یہ خود ساختہ فہم ان کے اعتقاد ونظریہ کے عین مطابق ہوتا ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدعتی منہج کو خطرات سے آگاہ کر دیا تھا، جیسا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت /