کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 91
دین میں فرقہ بندی کا سبب: دین میں فرقہ بندی کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ لوگوں نے سلف صالحین کے فہم کو ترک کردیا (اور ہر ایک نے اپنے اپنے فہم و فکر کو اسلام کا نام دے کر اسی پر عمل کرنا شروع کردیا) جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت مسلمہ مختلف گروپوں اور ٹولیوں میں تقسیم ہوگئی۔[1] اتباع: اب جو شخص حقیقت میں کتاب و سنت کی طرف رجوع ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس راستے کو لازم پکڑے جس پر صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین گامزن تھے۔[2]
[1] ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے یہاں جو سبب ذکر کیا ہے درحقیقت یہی ہے آج کے دور میں مسلمانوں میں گروپ بندی کا سب سے بڑا سبب بنا ہوا ہے یقینا مسلمانوں کے لیے محض کتاب و سنت کی طرف نسبت کرنا ہی کافی نہیں ہے جب تک ان کے مقتضی و مقصود پر عمل نہ کرلے اور ان دونوں کے مقتضی اور مقصود پر عمل کرنا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سلف صالحین کے فہم کے موافق ہو۔ اسی کو لوگ صحت عمل سے تعبیر کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحت عمل قبولیت عمل کے دو رکنوں میں سے ایک رکن ہے اور صحت عمل کا اعتماد اتباع پر ہے اور اتباع اسی وقت صحیح ہوگی جب وہ فہم صحابہ کے موافق ہو اور انہیں کے طریقے پر گامزن بھی ہو۔ [2] ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول: ’’فمن کان یرید حقا… جو شخص حقیقت میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہے…‘‘ یہ حقیقت میں اتباع کا معنی و مفہوم ہے اور اتباع کی یہی تعریف امام احمد رحمہ اللہ نے مسائل ابی داؤد (1789) میں کی ہے، کہتے ہیں: ’’إلاتباع: أن یتبع الرجل ما جاء من النبی صلي الله عليه وسلم ، وعن أصحابہ، ثم ہو من بعد التابعین مخیر۔‘‘ یعنی اتباع یہ ہے کہ آدمی اس چیز کی اتباع کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور صحابہ کرام سے ثابت ہو پھر تابعین کے بعد اختیار ہے۔‘‘ یہاں اس عبارت میں اور شیخ رحمہ اللہ کی عبارت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ تابعین کی اتباع اس وقت کی جائے گی جب ان کا بھی قول و عمل شرعی نصوص کے خلاف نہ ہو بلکہ ان کے موافق ہو، تابعین کی اتباع سے یہاں شیخ کی مراد یہ ہے کہ ان اقوال کو چھوڑ کر کسی دوسرے نئے ایجاد شدہ قول کو نہ لیا جائے جس کا کوئی امام نہ ہو یعنی پہلے سے جس قول کا کوئی قائل نہ ہو اور نہ ہی سلف میں سے کوئی اس کا قائل ہو۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنے تلمیذ رشید میمونی کو بھی اسی بات کی رہنمائی کی تھی اور ایسے قول کو لینے یا کہنے پر سخت تنبیہ کی تھی جس کا کوئی قائل نہ ہو۔ آپ نے فرمایا: یا ابا الحسن ایاک ان تتکلم فی مسألۃ لیس لک فیہا امام۔ تم ایسی بات کہنے سے بچو جس