کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 90
موجودہ صورت حال پر ایک نظر: موجودہ دور میں اسلام کے نام پر مختلف جماعتیں اور تنظیمیں بنی ہوئی ہیں ہر ایک اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب بھی کرتے ہیں اور ہر ایک کا اعتقاد و یقیں بھی یہی ہے کہ اسلام قرآن و سنت کا نام ہے لیکن ان میں کتنی ایسی جماعتیں ہیں جو صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے راستے پر نہ تو چلتی ہیں اور نہ ہی چلنا پسند کرتی ہیں۔[1]
[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی زیارت کا حکم دے دیا۔‘‘ (المستدرک للحاکم: 1/376، التمہید لابن عبد البر:3/233۔ یزید بن حمید ابی التیاح عن عبد اللّٰه بن ابی ملیکہ کی سند سے علامہ ذہبی نے ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں اس کو صحیح کہا ہے) اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا یہی فہم ہے ان کے سامنے بھی نص منع اباحت و رخصت موجود تھی۔ تمام نصوص کو سامنے رکھ کر انھوں نے یہی نتیجہ نکالا۔ اب یہ نسخ مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں عام ہے بخلاف متاخرین فقہاء کے کہ وہ منع کرتے ہیں۔ اب ہمارا فہم، فہم صحابہ کے خلاف ہے یا نہیں جبکہ ہمیں ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’تم لوگ میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے بعد خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور اس کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو‘‘ یعنی اس پر سختی سے عمل کرو۔ اسی حدیث سے امام احمد نے یہ حجت قائم کی ہے کہ اقوال صحابہ سنت ہیں۔ (مسائل أحمد بروایۃ أبی داؤد (1292))یہی زہری اور بہت سے اہل علم کا قول ہے۔ (ابن سعد نے ’’الطبقات‘‘(2/2/135) میں، اور ابونعیم نے ’’الحلیۃ‘‘ 3/360 میں اور خطیب بغدادی نے تقیید العلم‘‘ ص:106۔107 میں صالح بن کیسان سے صحیح سند سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: کہ میں اور زہری دونوں ایک ساتھ حصول علم میں مصروف تھے۔ ہم نے کہا کہ ہم سنن کو لکھیں گے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام سنن کو لکھا پھر انھوں نے کہا کہ صحابہ سے ثابت سنتوں کو بھی لکھیں گے کیونکہ یہ بھی سنت ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ سنت نہیں ہے اور ہم اس کو نہیں لکھیں گے تو انہوں نے لکھا لیکن میں نے نہیں لکھا تو وہ کامیاب ہوگئے لیکن میں نے بہت کچھ ضائع کردیا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ستارے آسمان کے لیے امان ہیں، جب ستارے ختم ہوجائیں گے تو آسمان کے پاس وہ چیز آجائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور میں اپنے اصحاب کے لیے امان ہوں جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ کے پاس وہ چیزیں آجائیں گی جن کا وعدہ کیا گیا ہے اور میرے اصحاب میری امت کے لیے امان ہیں پھر جب میرے اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت کے پاس وہ چیزیں آجائیں گی جن کا ان سے وعدہ کیا گیاہے۔ (صحیح مسلم:4/1961) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے اور ان کے فہم کو لازم پکڑنے میں ہر قسم کی ضلالت و گمراہی اور ہر قسم کی بدعت و خرافات سے امان اور نجات ہے ان کے قول و عمل اور ان کے راستے کو چھوڑنا ضلالت و گمراہی کی علامت ہے۔